تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ ۚ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الْكَافِرِينَ ﴿101﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم تم کو سناتے ہیں اور ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں لیکر آئے۔ مگر وہ ایسے نہیں تھے کہ جس چیز کو پہلے جھٹلا چکے ہوں اسے مان لیں اسی طرح خدا کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا 
پہلے قوم نوح، ہود ، صالح ، لوط اور قوم شعیب کا بیان گذر چکا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے ، معجزے دکھائے، سمجھایا ، بجھایا ، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے ۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہوگئے ، صرف ماننے والے بچ گئے ۔ اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ جب تک رسول نہ آ جائیں، خبردار نہ کر دیئے جائیں عذاب نہیں دیئے جاتے، ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں ۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے ۔ آیت (بما کذبوا) میں "ب"سببیہ ہے جیسے آیت (واذا سمعوا) کے پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ تم کیا جانو؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے ، ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے جھوڑ دیں گے، یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہریں لگا دیا کرتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر بد عہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں ۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا اور اسی پر پیدا کئے گئے اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے کرتے رہے ۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پروا نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی ۔ اللہ کو مالک خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل، خلاف عقل و نقل ، خلاف فطرت اور خلاف شرع ، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزین ان پر حرام کر دیں ۔ بخاری و مسلم میں ہے ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی نصرانی مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ خود قرآن کریم میں ہے ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ اے دنیا کے لوگو تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو ۔ اور آیت میں ہے تو اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لئے مقرر کئے تھے؟ اور فرمان ہے آیت (ولقد بعثنا فی کل امتہ رسولا ان اعبدو اللہ و اجتنبو الطاغوت) ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو ۔ اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے ایمان نہ لائے ۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور نا خوشی سے ہے ۔ جیسے فرمان ہے کہ یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے ۔