وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿104﴾
‏ [جالندھری]‏ اور موسیٰ نے کہا کہ اے فرعون میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
موسیٰ علیہ السلام اور فرعون
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور فرعون کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اللہ کے کلیم نے فرمایا کہ اے فرعون میں رب العالمیں کا رسول ہوں ۔ جو تمام عالم کا خالق و مالک ہے ۔ مجھے یہی لائق ہے کہ اللہ تعالٰی کے بارہ میں وہی باتیں کہوں جو سراسر حق ہوں"ب "اور "علی "یہ متعاقب ہوا کرتے ہیں جیسے رمیت بالقوس اور رمیت علی القوس وغیرہ ۔ اور بعض مفسرین کہتے ہیں حقیقی کے معنی حریض کے ہیں ۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ مجھ پر واجب اور حق ہے کہ اللہ ذوالمنین کا نام لے کر وہی خبر دوں جو حق و صداقت والی ہو کیونکہ میں اللہ عزوجل کی عظمت سے واقف ہوں ۔ میں اپنی صداقت کی الٰہی دلیل بھی ساتھ ہی لایا ہوں ۔ تو قوم بنی اسرائیل کو اپنے مظام سے آزاد کر دے ، انہیں اپنی زبردستی کی غلامی سے نکال دے، انہیں ان کے رب کی عبادت کرنے دے، یہ ایک زبردست بزرگ پیغمبر کی نسل سے ہیں یعنی حضرت یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہیں ۔ فرعون نے کہا میں تجھے سچا نہیں سمجھتا نہ تیری طلب پوری کروں گا اور اگر تو اپنے دعوے میں واقعہ ہی سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کر ۔