وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ ﴿127﴾
‏ [جالندھری]‏ اور قوم فرعون میں جو سردار تھے کہنے لگے کہ کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑ دیجئے گا کہ ملک میں خرابی کریں اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دستکش ہو جائیں؟ وہ بولے کہ ہم ان کے لڑکوں کو تو قتل کر ڈالیں گے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیں گے اور بےشبہہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
آخری حربہ بغاوت کا الزام 
فرعون اور فرعونیت نے حضرت موسیٰ اور مسلمانوں کے خلاف جو منصوبے سوچے ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کو ان مسلمانوں کے خلاف ابھارتے رہے کہنے لگے یہ تو آپ کی رعایا کو بہکاتے ہیں بغاوت پھیلا دیں گے ملک میں بد امنی پیدا کریں گے ان کا ضرور اور جلد کوئی انتظام کرنا چاہئے ، اللہ کی شان دیکھئے کیا مصلح بنے ہوئے ہیں کہ اللہ کے رسول اور مومنوں کے فساد سے دنیا کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مفسد اور بد نفس خود ہیں ۔ آیت (ویذرک) میں بعض تو کہتے ہیں واؤ حالیہ ہے یعنی در آنحالیکہ موسیٰ اور قوم موسیٰ نے تیری پرستش چھوڑ رکھی ہے پھر بھی تو انہیں زندہ رہنے دیتا ہے؟ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں ہے آیت (وقد ترکوک ان یعبدوا الھتک) اور قول ہے کہ واؤ عاطفہ ہے یعنی تو نے انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔ جس فساد کو یہ برپا کر رہے ہیں اور تیرے معبودوں کے چھوڑنے پر اکسا رہے ہیں ۔ بعض کی قرأت الاھتک ہے یعنی تیری عبادت سے، بعض کا بیان ہے کہ فرعون بھی کسی کو پوجا کرتا تھا۔ ایک قول ہے کہ اسے وہ پوشیدہ راز میں رکھتا تھا، ایک روایت میں ہے کہ اس کا بت اس کی گردن میں ہی لٹکتا رہتا تھا جسے یہ سجدہ کرتا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بہترین گائے پر فرعون کی نگاہ پڑی جاتی تو لوگوں سے کہہ دیتا کہ اس کی پرستش کرو۔ اسی لئے سامری نے بھی بنی اسرائیل کے لئے بچھڑا نکالا ۔ الغرض اپنے سرداروں کی بات سن کر فرعون جواب دیتا ہے کہ اب سے ان کے لئے ہم احکام جاری کریں گے کہ ان کے ہاں جو اولاد ہو دیکھ لی جائے ۔ اگر لڑکا ہو تو قتل کر دیا جائے لڑکی ہو تو زندہ چھوڑ دی جائے ۔ پہلے سرکش فرعون ان مساکین کے ساتھ یہی کر چکا تھا جبکہ اسے یہ منظور تھا کہ حضرت موسیٰ پیدا ہی نہ ہوں ۔ لیکن اللہ تعالٰی کا ارادہ غالب آیا اور حضرت موسیٰ باوجود اس کے حکم کے زندہ و سالم بجے رہے اب دوبارہ اس نے یہی قانون جاری کر دیا تاکہ بنی اسرائیل کی جمعیت ٹوٹ جائے ، یہ کمزور پڑ جائیں اور بالاخر ان کا نام مٹ جائے لیکن قدرت نے اس کا بھی خلاف کر دکھایا ، اسی کو اور اس کی قوم کو غارت کر دیا اور بنی اسرائیل کو اوج و ترقی پر پہنچا دیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تکبر کے مقابلے میں تحمل اور اس کے ظلم کے مقابلے میں صبر سے کام لیا اپنی قوم کو سمجھایا اور بتایا کہ اللہ فرما چکا ہے کہ لحاظ سے تم ہی اچھے رہو گے تم اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو ۔ قوم والوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ کی نبوت سے پہلے بھی ہم اس طرح ستائے جاتے رہے ، اسی ذلت و اہانت میں مبتلا رہے اور اب پھر یہی نوبت آئی ہے ۔ آپ نے مزید تسلی دی اور فرمایا کہ گھبراؤ نہیں ۔ یقین مانو کہ تمھارا بدخواہ ہلاک ہوگا اور تم کو اللہ تعالٰی اوج پر پہنچائے گا ۔ اس وقت وہ دیکھے گا کہ کون کتنا شکر بجا لاتا ہے؟ تکلیف کا ہٹ جانا راحت کامل جانا انسان کو نہال نہال کر دیتا ہے یہ پورے شکریئے کا وقت ہوتا ہے ۔