وَقَالُوا مَهْمَا تَأْتِنَا بِهِ مِنْ آيَةٍ لِتَسْحَرَنَا بِهَا فَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ ﴿132﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کہنے لگے کہ تم ہمارے پاس (خواہ) کوئی ہی نشانی لاؤ تاکہ اس سے ہم پر جادو کرو مگر ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
سیاہ دل لوگ اقرار کے بعد انکار کرتے رہے
ان کی سرکشی اور ضد دیکھئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف کہتے ہیں کہ آپ خواہ کتنی ہی دلیلیں پیش کریں کیسے ہی معجزے بتائیں ہم ایمان لانے والے نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ سب آپ کے جادو کے کرشمے ہیں ۔ ان پر طوفان آیا، بکثرت بارشیں برسیں جس سے پھل اور اناج تباہ ہوگئے اور اسی سے وبا اور طاعون کی بیماری پھیل پڑی ۔ اسی لئے بعض مفسرین نے کہا ہے طوفان سے مراد موت ہے ۔ بعض کہتے ہیں کوئی زبردست آسمانی آفت آئی تھی جس نے انہیں گھیر لیا تھا ۔ ٹڈیوں کی مصیبت ان پر آئی ۔ یہ ایک حلال جانور ہے ۔ عبداللہ بن ابی اونی سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا سات غزوے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہیں ۔ ہر ایک میں ہم تو ٹڈیاں کھاتے رہے، مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہمارے لئے حلال کئے گئے ہیں مچھلی اور ٹڈی اور کلیجی اور تلی ۔ ابو داؤد میں ہے حضور سے ٹڈی کی نسبت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اللہ کے لشکر بہت سے ہیں جنہیں نہ کھاتا ہوں نہ حرام کہتا ہوں ۔ حضور نے جی نہ چاہنے کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا جیسے کہ گو آپ نے نہیں کھایا حالانکہ دوسروں کو اس کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔ حافظ ابن عساکر رحمت اللہ علیہ نے ایک مستقل رسالہ اسی میں تصنیف فرمایا ہے اس میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضور ٹڈی نہیں کھاتے تھے اور نہ گردے کھاتے تھے اور نہ گوہ ۔ لیکن انہیں آپ نے حرام نہیں کیا ۔ ٹڈی اس وجہ سے کہ وہ عذاب ہے ، گردے اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کے قریب ہیں اور گوہ اس وجہ سے کہ آپ کو خوف تھا کہ کہیں یہ مسخ شدہ امت نہ ہو ، پھر یہ روایت بھی غریب ہے صرف یہی ایک سند ہے ، امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ ٹڈی کو بڑی رغبت سے کھایا کرتے ، تلاش کر کے منگوایا کرتے ۔ چنانچہ کسی نے آپ سے مسئلہ پوچھا کہ ٹڈی کھائی جائے؟ آپ نے فرمایا کاش کہ ایک دو پیس مل جاتیں تو کیسے مزے سے کھاتے ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ امہات المومنین تو طباقوں میں لگا کر ٹڈیاں ہدیے اور تحفے کے طور پر بھیجتی تھیں ۔ امام بغوی ایک روایت لائے ہیں کہ حضور نے فرمایا حضرت مریم بنت عمران علیہما السلام نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ ایسا گوشت مجھے کھلا جس میں خون نہ ہو اللہ تعالٰی نے انہیں ٹڈی کھلائی آپ نے ان کے لئے دعا کی کہ اے اللہ اسے بغیر دودھ پینے کے زندگی دے اور اس کی اولاد کو بغیر آواز نکالے اس کے پیچھے لگا دے ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث میں ہے ٹڈیوں کو مارو نہیں یہ اللہ تعالٰی کا بڑا لشکر ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہ ٹڈیاں ان کے دروازوں کی کیلیں کھا جاتی تھیں اور لکڑی چھوڑ دیتی تھیں اور زاعی کہتے ہیں میں ایک دن جنگل میں تھا کیا دیکھتا ہوں کہ ٹڈیاں بہت سی آسمان کی طرف ہیں اور ان میں سے ایک ٹڈی پر ایک شخص سوار ہے جو ہتھیار بند ہے جو جس طرف اشارہ کرتا ہے ساری ٹڈیاں اس طرف کو جھک جاتی ہیں اور وہ زبان سے برابر کہہ رہا ہے کہ دنیا باطل ہے اور اس میں جو ہے وہ بھی باطل ہے ۔ شریح قاضی فرماتے ہیں اس جانور میں سات مختلف جانوروں کی شان ہے اس کا سر گو گھوڑے جیسا ہے گردن بیل جیسی ہے سینہ شیر جیسا ہے پر گدھ جیسے ہیں پر اونٹ جیسے ہیں دم سانپ کی طرح کی ہے ۔ پیٹ بچھو جیسا ہے آیت (احل لیکم صید البحر) کی تفسیر میں یہ روایت گذر چکی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرے میں جا رہے تھے تو سامنے سے ہمیں ٹڈی دل ملا ہم نے احرام کی حالت میں انہیں لکڑیوں سے مارنا شروع کیا حضور سے سوال کرنے پر آپ نے فرمایا دریائی شکار میں محرم کو کوئی حرج نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان ٹڈیوں کیلئے بد دعا کرتے تو فرماتے اے اللہ جتنی ان میں سے بڑی ہیں تو انہیں سب کو ہلاک کر ڈال اور جتنی چھوٹی ہیں سب کو قتل کر ڈال ان کے انڈے خراب کر دے ان کی نسل کاٹ دے ان کے منہ ہماری روزی سے روک لے ہمیں روزیاں عطا فرما بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے ۔ اس پر حضرت جابر نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ کے ایک لشکر کے غارت و برباد ہو جانے کی آپ دعا کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو سمندر کے اندر کی مچھلیوں کا ناک جھاڑن ہے ۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اسے مچھلی میں سے اسی طرح نکلتے دیکھا ہے ۔ جب مچھلی سمندر کے کنارے انڈے دے جاتی ہے وہاں سے جب پانی ہٹ جاتا ہے اور دھوپ پڑنے لگتی ہے تو وہ انڈے سب کے سب پھوٹ جاتے ہیں اور ان میں سے ٹڈیاں نکلتی ہیں جو پرواز کر جاتی ہیں ۔ آیت قرآن (الاامم امثالکم) کی تفسیر میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وہ حدیث ہم نے بیان کر دی ہے کہ اللہ تعالٰی نے ایک ہزار امتیں پیدا کی ہیں جن میں سے چھ سو تری میں ہیں اور جار سو خشکی میں ۔ سب سے پہلے ہلاکت ٹڈیوں کی ہوگی ۔ امام ابوبکر بن ابو داؤد ایک حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لکڑی تلوار کے مقابلے پر کچھ نہیں اور درخت کی چھال ٹڈی کے مقابلے میں کچھ نہیں یہ حدیث غریب ہے ۔ قتل کے بارے میں ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ وہ سیاہ رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جو گہیوں میں سے نکلتے ہیں اور قول ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی بےپر کی ٹڈیاں ہیں ۔ سعید کہتے ہیں سیاہ رنگ کے چھوٹے سے کیڑے ہیں ۔ اس کا واحد قملہ ہے ۔ یہ جانور جب اونٹ کو چمٹ جاتے ہیں تو اسے ہلاک کر دیتے ہیں ۔ الغرض ایسے ہی موذی جانور بصورت عذاب فرعونیوں کے لئے بھیجے گئے تھے ۔ فرعون کی سرکشی اور انکار پر طوفان آیا جس سے انہیں یقین ہو گیا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے ۔ گڑ گڑا کر حضرت موسیٰ سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے یہ موسلا دھار پانی رک جائے تو ہم آپ پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ کر دیں گے ۔ آپ نے دعا کی طوفان ہٹ گیا تو یہ اپنے وعدے سے پھر گئے ۔ پھر اللہ کی شان ہے کہ کھیتیاں اور باغات اس قدر پھلے کہ اس سے پہلے کبھی ایسے نہیں پھلے تھے جب تیار ہوگئے تو ٹڈیوں کا عذاب آیا اسے دیکھ کر پھر گھبرائے اور موسیٰ علیہ السلام سے عرض کرنے لگے کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہٹا لے اب ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں آپ کی دعا سے یہ عذاب بھی ہٹ گیا لیکن انہوں نے پھر وعدہ شکنی کی ۔ فصلیں کاٹ لائے کھلیان اٹھا لئے ۔ لیکن اللہ تعالٰی کا عذاب پھر اور شکل میں آیا تمام اناج وغیرہ میں کیڑا لگ گیا اس قدر بکثرت یہ جانور پھیل گئے کہ دس پیمانے لے کر کوئی شخص پسوانے نکلتا تو پسوائے تک وہ جانور سات پیمانے کھا لیتے۔ گھبرا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے پھر وعدے کئے آپ پھر دعا کی اللہ تعالٰی نے اس آفت کو بھی ہٹا لیا ۔ لیکن انہوں نے پھر بے ایمانی کی ۔ نہ بنی اسرائیل کو رہا کیا نہ ایمان قبول کیا ۔ اس پر مینڈکوں کا عذاب آیا ۔ دربار میں فرعون بیٹھا ہوا ہے تو وہیں مینڈک ظاہر ہو کر ٹرانے لگا سمجھ گئے کہ یہ نئی شکل کا عذاب الٰہی ہے ۔ اب یہ پھیلنے اور بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ آدمی بیٹھتا تو اس کی گردن تک آس پاس سے اسے مینڈک گھیر لیتے ۔ جہاں بات کرنے کیلئے کوئی منہ کھولتا کہ مینڈک تڑپ کر اس کے منہ میں گھس جاتا ۔ پھر تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس عذاب کے ہٹنے کی درخواست کی اور اقرار کیا کہ ہم خود ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کر دیں گے آپ نے دعا کی اللہ تعالٰی نے اس مصیبت کو بھی دفع کر دیا لیکن پھر مکر گئے ۔ چنانچہ ان پر خون کا عذاب آیا تمام برتنوں میں خون کھانے پینے کی چیزوں میں خون کنویں میں سے پانی نکلایں تو خون ۔ تالاب سے پانی لائیں تو خون ۔ پھر تڑپ اٹھے فرعون نے کہا یہ بھی جادو ہے لیکن جب تنگ آ گئے تو آخر حضرت موسیٰ سے مع وعدہ درخواست کی کہ ہم تو پانی سے ترس گئے ۔ چنانچہ آپ نے قول قرار لے کھر پور دعا کی اور اللہ نے اس عذاب کو بھی ہٹا لیا لیکن یہ پھر منکر ہوگئے ۔ فرعون جب میدان سے ناکام واپس لوٹا تھا اس نے ٹھان لی تھی کہ خواہ کچھ بھی ہو میں ایمان نہ لاؤں گا۔ چنانچہ طوفان کی وجہ سے بھوکوں مرنے لگے پھر ٹڈیوں کا عذاب آیا تو درخت تو کیا گھر کی چوکھٹیں اور دروازوں تک وہ کھا گئیں مکانات گرنے لگے پھر حضرت موسیٰ نے اللہ کے حکم سے ایک پتھر پر لکڑی ماری ۔ جس میں سے بیشمار چچڑیاں نکل پڑیں اور پھیل گئیں ۔ کھانا ، پینا ، سونا ، بیٹھنا ، سب بند ہو گیا ۔ پھر مینڈکوں کا عذاب آیا جہاں دیکھو مینڈک نظر آنے لگے ۔ پھر خون کا عذاب آیا نہریں ، تالاب ، کنویں ، مٹکے گھڑے وغیرہ غرض بجائے پانی کے خون ہی خون سب چیزیں ہو گئیں۔ عبید اللہ بن عمرو فرماتے ہیں مینڈک کو نہ مارو یہ جب بصورت عذاب فرعونیوں کے پاس آئے تو ایک نے اللہ کی رضا جوئی کے لئے تنور میں چھلانگ ماری ۔ اللہ نے اس کے بدلے انہیں پانی کی ٹھنڈک عطا فرمائی اور ان کی آواز کو اپنی تسبیح بنایا ۔ یہ بھی مروی ہے کہ خون سے مراد نکسیر پھوٹنا ہے الغرض ہر عذاب کو دیکھ کر اقرار کرتے لیکن جب حضرت موسیٰ کی دعا سے وہ ہٹ جاتا تو پھر انکار کر جاتے ۔