سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا وَإِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ ﴿146﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ زمین میں ناحق غرور کرتے ہیں ان کو اپنی آیتوں سے پھیر دوں گا۔ اگر یہ سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تب بھی ان پر ایمان نہ لائیں۔ اور اگر راستی کا راستہ دیکھیں تو (اپنا) راستہ نہ بنائیں۔ اور اگر گمراہی کی راہ دیکھیں تو اسے راستہ بنا لیں۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان سے غفلت کرتے رہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
تکبر کا پھل محرومی 
تکبر کا نتیجہ ہمیشہ جہالت ہوتا ہے ایسے لوگوں کو حق سمجھنے ، اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی ۔ ان کے بے ایمانی کی وجہ سے ان کے دل الٹ جاتے ہیں ، آنکھ کان بےکار ہو جاتے ہیں ۔ ان کی کجی ان کے دلوں کو بھی کج کر دیتی ہے ۔ علماء کا مقولہ ہے کہ متکبر اور پوچھنے سے جی چرانے والا کبھی عالم نہیں ہو سکتا ۔ جو شخص تھوڑی دیر کے لئے علم کے حاصل کرنے میں اپنے آپ کو دوسرے کے سامنے نہ جھکائے وہ عمر بھر ذلت و رسوائی میں رہتا ہے ۔ متکبر لوگوں کو قرآن کی سمجھ کہاں؟ وہ تو رب کی آیتوں سے بھاگتے رہتے ہیں ۔ اس امت کے لوگ ہوں یا اور امتوں کے سب کے ساتھ اللہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ تکبر کی وجہ سے حق کی پیروی نصیب نہیں ہوتی چونکہ یہ لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں اگرچہ یہ بڑے بڑے معجزے بھی دیکھ لیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوگا ۔ گو نجات کے راستے ان پر کھل جائیں لیکن اس راہ پر چلنا ان کے لئے دشوار ہے ۔ ہاں بری راہ سامنے آتے ہی یہ بےطرح اس پر لپکے ۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں جھٹلانا ہے اور اپنے اعمال کے نتیجوں سے بےخبر ہیں ۔ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلائیں ، آخرت کا یقین نہ رکھیں ، اسی عقیدے پر مریں ان کے اعمال اکارت ہیں ۔ ہم کسی پر ظلم نہیں کرتے بدلہ صرف کئے ہوئے اعمال کا ہی ملتا ہے ۔ بھلے کا بھلا اور برے کا برا، جیسا کر وگے ویسا بھرو گے ۔