وَاخْتَارَ مُوسَى قَوْمَهُ سَبْعِينَ رَجُلًا لِمِيقَاتِنَا ۖ فَلَمَّا أَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُمْ مِنْ قَبْلُ وَإِيَّايَ ۖ أَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَاءُ مِنَّا ۖ إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ ۖ أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۖ وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ﴿155﴾
‏ [جالندھری]‏ اور موسیٰ نے (اس میعاد پر جو ہم نے مقرر کی تھی) اپنی قوم کے ستر آدمی منتخب (کر کے کوہ طور پر حاضر) کئے جب ان کو زلزلے نے پکڑا تو (موسی نے) کہا کہ اے پروردگار! اگر تو چاہتا تو ان کو اور مجھ کو پہلے ہی سے ہلاک کر دیتا۔ کیا تو اس فعل کی سزا میں جو ہم میں سے بےعقل لوگوں نے کیا ہے ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری آزمائش ہے۔ اس سے تو جس کو چاہے گمراہ کرے اور جسے چاہے ہدایت بخشے۔ تو ہی ہمارا کار ساز ہے۔ تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
موسیٰ علیہ السلام کی کوہ طور سے واپسی ٭٭ 
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حسب فرمان الٰہی اپنی قوم سے ستر شخصوں کو منتخب کیا اور جناب باری سے دعائیں مانگنا شروع کیں ۔ لیکن یہ لوگ اپنی دعا میں حد سے تجاوز کر گئے کہنے لگے اللہ تو ہمیں وہ دے جو نہ ہم سے پہلے کسی کو دیا ہو نہ ہمارے بعد کسی کو دے ۔ یہ دعا اللہ تعالٰی کو ناپسند آئی اور ان پر بھونچال آ گیا ۔ جس سے گھبرا کر حضرت موسیٰ اللہ سے دعائیں کرنے لگے ۔ سدی کہتے ہیں انہیں لے کر آپ اللہ تعالٰی سے بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی کی معذرت کرنے کیلئے گئے تھے ۔ یہاں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے ہم تو جب تک خود اللہ تعالٰی کو کھلم کھلا اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے ۔ ہم کلام سن رہے ہیں لیکن دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس پر کڑاکے کی آواز ہوئی اور یہ سب مر کھپ گئے حضرت موسیٰ نے رونا شروع کیا کہ اللہ میں بنی اسرائیل کو کیا منہ دکھاؤں گا؟ ان کے یہ بہترین لوگ تھے اگر یہی منشا تھی تو اس سے پہلے ہی ہمیں ہلاک کر دیا ہوتا ۔ امام محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ انہیں اس بت پرستی سے توبہ کرنے کیلئے بطور وفد کے آپ لے چلے تھے ۔ ان سے فرما دیا تھا کہ پاک صاف ہو جاؤ پاک کپڑے پہن لو اور روزے سے چلو یہ اللہ کے بتائے ہوئے وقت پر طور سینا پہنچے ۔ مناجات میں مشعول ہوئے تو انہوں نے خواہش کی کہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم بھی اللہ کا کلام سنیں آپ نے دعا کی جب حسب عادت بادل آیا اور موسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ گئے اور بادل میں چھپ گئے قوم سے فرمایا تم بھی قریب آ جاؤ یہ بھی اندر چلے گئے اور حسب معمول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی پر ایک نور چمکنے لگا جو اللہ کے کلام کے وقت برابر چمکتا رہتا تھا اس وقت کوئی انسان آپ کے چہرے پر نگاہ نہیں ڈال سکتا تھا آپ نے حجاب کر لیا لوگ سب سجدے میں گر پڑے اور اللہ کا کلام شروع ہوا جو یہ لوگ بھی سن رہے تھے کہ فرمان ہو رہا ہے یہ کر یہ نہ کر وغیرہ ۔ جب باتیں ہو چکیں اور ابر اٹھ گیا تو ان لوگوں نے کہا ہم تو جب تک اللہ کو خود خوب ظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر کڑاکا نازل ہوا اور سب کے سب ایک ساتھ مر گئے موسیٰ علیہ السلام بہت گھبرائے اور مناجات شروع کر دی اس میں یہاں تک کہا کہ اگر ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے پہلے ہلاک کیا ہوتا ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو اور شبر اور شبیر کو لے کر پہار کی گھاٹی میں گئے ۔ ہارون ایک بلند جگہ کھڑے تھے کہ ان کی روح قبض کر لی گئی جب آپ واپس بنی اسرائیل کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے بھائی بڑے ملنسار اور نرم آدمی تھے آپ نے ہی انہیں الگ لے جا کر قتل کر دیا اس پر آپ نے فرمایا اجھا تم اپنے میں سے ستر آدمی چھانٹ کر میرے ساتھ کر دو انہوں نے کر دیئے جنہیں لے کر آپ گئے اور حضرت ہارون کی لاش سے پوچھا کہ آپ کو کس نے قتل کیا ؟ اللہ کی قدرت سے وہ بولے کسی نے نہیں بلکہ میں اپنی موت مرا ہوں انہوں نے کہا بس موسیٰ اب سے آپ کی نافرمانی ہرگز نہ کی جائے گی اسی وقت زلزلہ آیا جس سے وہ سب مر گئے اب تو حضرت موسیٰ بہت گھبرائے دائیں بائیں گھومنے لگے اور وہ عرض کرنے لگے جو قرآن میں مذکور ہے ۔ پس اللہ تعالٰی نے آپ کی التجا قبول کر لی ان سب کو زندہ کر دیا اور بعد میں وہ سب انبیاء بنے لیکن یہ اثر بہت ہی غریب ہے اس کا ایک راوی عمارہ بن عبد غیر معروف ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ ان پر اس زلزلے کے آنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ بچھڑے کی پرستش کے وقت خاموش تھے ان پجاریوں کو روکتے نہ تھے اس قول کی دلیل میں حضرت موسیٰ کا یہ فرمان بالکل ٹھیک اترتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے چند بیوقوفوں کے فعل کی وجہ سے تو ہمیں ہلاک کر رہا ہے؟ پھر فرماتے ہیں یہ تو تیری طرف کی آزمائش ہی ہے تیرا ہی حکم چلتا ہے اور تیری ہی چاہت کامیاب ہے ۔ ہدایت و ضلالت تیرے ہی ساتھ ہے جس کو تو ہدایت دے اسے کوئی بہکا نہیں سکتا اور جسے تو بہکائے اس کی کوئی رہبری نہیں کر سکتا ۔ تو جس سے روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور جسے دے دے اس سے کوئی چھین نہیں سکتا ۔ ملک کا مالک تو اکیلا ، حکم کا حاکم صرف تو ہی ہے۔ خلق و امر تیرا ہی ہے تو ہمارا ولی ہے ، ہمیں بخش ، ہم پر رحم فرما ، تو سب سے اچھا معاف فرمانے والا ہے ۔ غفر کے معنی ہیں چھپا دینا اور پکڑ نہ کرنا جب رحمت بھی اس کے ساتھ مل جائے تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ آئندہ اس گناہ سے بچاؤ ہو جائے ۔ گناہوں کا بخش دینے والا صرف تو ہی ہے ۔ پس جس چیز سے ڈر تھا اس کا بچاؤ طلب کرنے کے بعد اب مقصود حاصل کرنے کیلئے دعا کی جاتی ہے کہ ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اسے ہمارے نام لکھ دے واجب و ثابت کر دے ۔ حسنہ کی تفسیر سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے ۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں، رغبت ہماری تیری ہی جانب ہے ، ہماری توبہ اور عاجزی تیری طرف ہے ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ چونکہ انہوں نے ھدنا کہا تھا اس لئے انہیں یہودی کہا گیا ہے لیکن اس روایت کی سند میں جابر بن یزید جعفی ہیں جو ضعیف ہیں ۔