وَمِنْ قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ ﴿159﴾
‏ [جالندھری]‏ اور قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حق کا راستہ بتاتے اور اسی کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
انبیاء کا قاتل گروہ 
خبر ہے کہ امت موسیٰ میں بھی ایک گروہ حق کا ماننے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہےآیت ( من اھل الکتاب امتہ قائمتہ الخ) ، اہل کتاب میں سے ایک جماعت حق پر قائم ہے ، راتوں کو اللہ کے کلام کی تلاوت کرتی رہتی ہے اور برابر سجدے کیا کرتی ہے اور آیت میں ہے (وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ الخ)، یعنی اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اور اس پر جو ان کی طرف اتارا گیا ہے ایمان کا اور اس کی حقانیت کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے ہی مسلمان تھے انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر ہے اور آیت میں ہے (الذین اتینا ھم الکتاب یتلو نہ حق تلاوتہ اولئک یومنون بہ الخ)، جو لوگ ہماری کتاب پائے ہوئے ہیں اور اسے حق تلاوت کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتے ہیں وہ اس قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور فرمان ہے آیت (ان الذین اوتوا العلم من قبلہ الخ)، جو لوگ پہلے علم دیئے گئے ہیں وہ ہمارے پاک قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں ۔ ہماری پاکیزگی کا اظہار کر کے ہمارے وعدوں کی سچائی بیان کرتے ہیں ۔ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے کرتے ہیں اور عاجزی اور اللہ سے خوف کھانے میں سبقت لے جاتے ہیں امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں اس جگہ ایک عجیب خبر لکھی ہے کہ ابن جریج فرماتے ہیں جب بنی اسرائیل نے کفر کیا اور اپنے نبیوں کو قتل کیا ان کے بارہ گروہ تھے ان میں سے ایک گروہ اس نالائق گروہ سے الگ رہا اللہ تعالٰی سے معذورت کی اور دعا کی کہ ان میں اور ان گیارہ گروہوں میں وہ تفریق کر دے۔ چنانچہ زمین میں ایک سرنگ ہو گئی یہ اس میں چلے گئے اور چین کے پرلے پار نکل گئے وہاں پر سچے سیدھے مسلمان انہیں ملے جو ہمارے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ آیت (وقلنا من بعد لبنی اسرائیل اکنوا الارض الخ)، کا یہی مطلب ہے ۔ اس آیت میں جس دوسرے وعدے کا ذکر ہے یہ آخرت کا وعدہ ہے ۔ کہتے ہیں اس سرنگ میں ڈیڑھ سال تک وہ چلتے رہے۔ کہتے ہیں اس قوم کے اور تمہارے درمیان ایک نہر ہے ۔