يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ ﴿15﴾
‏ [جالندھری]‏ اے اہل ایمان ! جب میدان جنگ میں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
شہیدان وفا کے قصے
جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اس کی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے ۔ جب لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیرنا حرام ہے ہاں اس شخص کے لئے جو فن جنگ کے طور پر پینترا بدلے یا دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موقعہ پر وار کرنے کے لئے بھاگے یا اس طرح لشکر پیچھے ہٹے اور دشمن کو گھات میں لے کر پھر ان پر اچانک چھاپہ مار دے تو بیشک اس کیلئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں جانا ہو جہاں چھوٹے سے لشکر سے بڑے لشکر کا ٹکراؤ ہو یا امام اعظم سے ملنا ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا میں بھی اس میں ہی تھا لوگوں میں بھگدڑ مچی میں بھی بھاگا ہم لوگ بہت ہی نادم ہوئے کہ ہم اللہ کی راہ سے بھاگے ہیں اللہ کا غضب ہم پر ہے ہم اب مدینے جائیں اور وہاں رات گذار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں اگر ہماری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے تو خیر ورنہ ہم جنگوں میں نکل جائیں ۔ چنانچہ نماز فجر سے پہلے ہم جا کر بیٹھ گئے جب حضور آئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا بھاگنے والے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم لوٹنے والے ہو میں تمہاری جماعت ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ہم نے بےساختہ آگے بڑھ کر حضور کے ہاتھ چوم لئے ۔ ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہہ کر فرماتے ہیں ہم اسے ابن ابی زیاد کے علاوہ کسی کی حدیث سے پہچانتے نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور کے اس فرمان کے بعد آپ کا اس آیت کا تلاوت کرنا بھی مذکور ہے ۔ حضرت ابوعبیدہ جنگ فارس میں ایک پل پر گھیر لئے گئے مجوسیوں کے ٹڈی دل لشکروں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا موقعہ تھا کہ آپ ان میں سے بچ کر نکل آتے لیکن آپ نے مردانہ وار اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش فرمایا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ وہاں سے میرے پاس چلے آتے تو ان کے لئے جائز تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں مجھ سے مل جانے میں کوئی حرج نہیں اور روایت میں ہے میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں۔ اور روایت میں ہے کہ تم اس آیت کا غلط مطلب نہ لینا یہ واقعہ بدر کے متعلق ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کیلئے وہ فعتہ جس کی طرف پناہ لینے کے لئے واپس مڑنا جائز ہے ، میں ہوں ۔ ابن عمر سے نافع نے سوال کیا کہ ہم لوگ دشمن کی لڑائی کے وقت ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ فئتہ سے مراد امام لشکر ہے یا مسلمانوں کو جنگی مرکز آپ نے فرمایا فئتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا یہ آیت بدر کے دن اتری ہے نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ضحاک فرماتے ہیں لشکر کفار سے بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس پناہ لے اس کے لئے جائز ہے ۔ آج بھی امیر اور سالار لشکر کے پاس یا اپنے مرکز میں جو بھی آئے اس کیلئے یہی حکم ہے ۔ ہاں اس صورت کے سوا نامردی اور بزدلی کے طور پر لشکر گاہ سے جو بھاگ کھڑا ہو لڑائی میں پشت دکھائے وہ جہنمی ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہے وہ حرمت کے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سات گناہوں سے جو مہلک ہیں بچتے رہو پوچھا گیا کہ وہ کیا کیا ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو، کسی کو ناحق مار ڈالنا، سود خوری ، یتیم کا مال کھانا، میدان جہاد سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہونا، ایماندر پاک دامن بےعیب عورتوں پر تہمت لگانا ۔ فرمان ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ تعالٰی کا غضب و غصہ لے کر لوٹتا ہے اس کی لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ جہنم ہے جو بہت ہی بدتر ہے ۔ بشیر بن معبد کہتے ہیں میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے آیا تو آپ نے شرط بیان کی اللہ تعالٰی کی وحدانیت ، شہادت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کی شہادت دوں پانچوں وقت کی نماز قائم رکھوں اور زکوۃ ادا کرتا رہوں اور حج مطابق اسلام بجا لاؤں اور رمضان المبارک کے مہی نے کے روزے رکھوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کروں ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اس میں سے دو کام میرے بس کے نہیں ایک تو جہاد دوسرے زکوۃ میں نے تو سنا ہے کہ جہاد میں پیٹھ دکھانے والا اللہ کے غضب میں آ جاتا ہے مجھے توڈر ہے کہ موت کا بھیانک سماں کہیں کسی وقت میرا منہ نہ پھیر دے اور مال غنیمت اور عشر ہی میرے پاس ہوتا ہے وہ ہی میرے بچوں اور گھر والوں کا اثاثہ ہے سواری لیں اور دودھ پئیں اسے میں کسی کو کیسے دے دوں؟ آپ نے اپنا ہاتھ ہلا کر فرمایا جب جہاد بھی نہ ہو اور صدقہ بھی نہ ہو تو جنت کیسے مل جائے ؟ میں نے کہا اچھا یا رسول اللہ سب شرطیں منظور ہیں چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں مسند احمد میں ہے اور اس سند سے غریب ہے ۔ طبرانی میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تین گناہوں کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اللہ کے ساتھ شرک، ماں باپ کی نافرمانی لڑائی سے بھاگنا ، یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ۔ اسی طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں جس نے دعا(استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو واتوب الیہ) پڑھ لیا اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں گو وہ لڑائی سے بھاگا ہو ۔ ابوداؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں اور آنحضرت کے مولیٰ زید اس کے راوی ہیں۔ ان سے اس کے سوا کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ بھاگنے کی حرمت کا یہ حکم صحابہ کے ساتھ مخصوص تھا اس لئے کہ ان پر جہاد فرض عین تھا اور کہا گیا ہے کہ انصار کے ساتھ ہی مخصوص تھا اسلئے کہ ان کی بیعت سننے اور ماننے کی تھی خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بدری صحابہ کے ساتھ یہ خاص تھا کیونکہ ان کی کوئی جماعت تھی ہی نہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ اے اللہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یو مئذ سے مراد بدر کا دن ہے اب اگر کوئی اپنی بری جماعت کی طرف آ جائے یا کسی قلعے میں پناہ لے تو میرے خیال میں تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ بدر والے دن جو بھاگے اس کیلئے دوزخ واجب تھی اس کے بعد جنگ احد ہوئی اس وقت یہ آیتیں اتریں (ان الذین تولوا منکم) سے عفا اللہ عنھم تک ۔ اس کے ساتھ سال بعد جنگ حنین ہوئی جس کے بارے میں قرانی ذکر ہے آیت (ثم ولیتم مدبرین) پھر اللہ نے جس کی جاہی توبہ قبول فرمائی ۔ ابوداؤد نسائی مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ ابو سعید فرماتے ہیں یہ آیت بدریوں کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گویہ مان لیا جائے کہ سبب نزول اس آیت کا بدری لوگ ہیں مگر لڑائی سے منہ پھیرنا تو حرام ہے جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذرا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں ایک یہ بھی ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے واللہ اعلم ۔