وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا ۙ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ ﴿31﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں۔ اور یہ ہے ہی کیا؟ صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عذاب الٰہی نہ آنے کا سبب : اللہ کے رسول اور استغفار
اللہ تعالٰی مشرکوں کے غرور و تکبر ، ان کی سرکشی اور ناحق شناسی کی ، ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی حالت بیان کرتا ہے کہ جھوٹ موت بک دیتے ہیں کہ ہاں بھئی ہم نے قرآن سن لیا ، اس میں رکھا کیا ہے ۔ ہم خود قدر ہیں، اگر چاہیں تو اسی جیسا کلام کہدیں۔ حالانکہ وہ کہہ نہیں سکتے ۔ اپنی عاجزی اور تہی دستی کو خوب جانتے ، لیکن زبان سے شیخی بگھارتے تھے۔ جہاں قرآن سنا تو اس کی قدر گھٹانے کیلئے بک دیا جب کہ ان سے زبردست دعوے کے ساتھ کہا گیا کہ لاؤ اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر لاؤ تو سب عاجز ہوگئے ۔ پس یہ قول صرف جاہلوں کی خوش طبعی کیلئے کہتے تھے ۔ کہا گیا ہے کہ یہ کہنے والا نصر بن حارث ملعون تھا۔ یہ خبیث فارس کے ملک گیا تو تھا اور رستم و اسفند یار کے قصے یاد کر آیا تھا۔ یہاں حضور کو نبوت مل چکی تھی آپ لوگوں کو کلام اللہ شریف سنا رہے ہوتے جب آپ فارغ ہوتے تو یہ اپنی مجلس جماتا اور فارس کے قصے سناتا ، پھر فخراً کہتا کہو میرا بیان اچھا ہے یا محمد کا؟ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہ بدر کے دن قید ہو کر لا یا گیا اور حضور کے فرمان سے آپ کے سامنے اس کی گردن ماری گئی فالحمدللہ اسے قید کرنے والے حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ تھے ۔ قبہ بن ابی معیط ، طعیمہ بن عدی ، نصر بن حارث ، یہ تینوں اسی قید میں قتل کئے گئے ۔ حضرت مقداد بنے کہا بھی کہ یا رسول اللہ میرا قیدی؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ عزوجل کی کتاب کے بارے میں زبان درازی کرتا تھا۔ انہوں نے بعد از قتل پھر کہا کہ حضور میں جسے باندھ کر لایا ہوں؟ آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اپنے فضل سے مقداد کو غنی کر دے ۔ آپ خوش ہوگئے اور عرض کیا کہ حضور یہی میرا مقصد اور مقصود تھا ۔ اسی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام ہے لیکن یہ غلط ہے بدر والے دن وہ تو زندہ ہی نہ تھا بلکہ حضور کا فرمان مروی ہے کہ اگر آج یہ زندہ ہوتا اور مجھ سے ان قیدیوں کو طلب کرتا تو میں اسے دے دیتا ۔ اس لئے کہ طائف سے لوٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی اپنی پناہ میں مکہ میں لے گیا تھا ۔ یہ کفار کہتے تھے کہ قرآن میں سوائے پہلے لوگوں کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کیا دھرا ہے انہیں کو پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سناتا رہتا ہے ۔ حالانکہ یہ محض جھوت بات تھی جو انہوں نے گھڑ لی تھی اسی لئے ان کے اس قول کو نقل کر کے جناب باری نے فرمایا ہے کہ انہیں جواب دے کہ اسے تو آسمان و زمین کی تمام غائب باتوں کے جاننے والے نے اتارا ہے جو غفور بھی ہے اور رحیم بھی ہے ۔ توبہ کرنے والوں کی خطائیں معاف فرماتا ہے ، اپنے سامنے جھکنے والوں پر بڑے کرم کرتا ہے۔ پھر ان کی جہالت کا کرشمہ بیان ہو رہا ہے کہ چاہئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالٰی سے دعا کرتے کہ یا اللہ اگر یہ حق ہے تو ہمیں اس کی ہدایت دے اور اس کی اتباع کی توفیق نصیب فرما لیکن بجائے اس کے یہ دعا کرنے لگے کہ ہمیں جلد عذاب کر ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ہرچیز کا وقت مقرر ہے ورنہ اس پر بھی عذاب آ جاتا لیکن اگر تمہارا یہی حال رہا تو پھر بھی وہ دن دور نہیں اچانک ان کی بےخبری میں اپنے وقت پر آ ہی جائے گا ۔ یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہمارا فیصلہ فیصلے کے دن سے پہلے ہی ہو جائے گا بطور مذاق عذاب کے واقع ہونے کی درخوات کرتے تھے جو کافروں پر آنے ولاا ہے ، جسے کوئی روک نہیں سکتا، جو اس اللہ کی طرف سے ہو گا جو سیڑھیوں والا ہے ۔ اگلی امتوں کے جاہلوں کا بھی یہی وطیرہ رہا ۔ قوم شعیب نے کہا تھا کہ اے مدعی نبوت اگر تو سجا ہے تو ہم پر آسمان کو گرا دے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کہا ۔ ابوجہل وعیرہ نے یہ دعا کی تھی جس کے جواب میں فرمایا گیا کہ رسول اللہ کی موجودگی اور انہی میں سے بعض کا استغفار اللہ کے عذاب کی ڈھال ہے ۔ نصر بن حارث بن کلدہ نے بھی یہی دعا کی تھی جس کا ذکر سال سائل میں ہے ان کے اسی قول کا ذکر آیت وقالو ربنا عجل لنا الخ، میں ہے اور آیت ولقد جئتمو نا فرادی الخ، میں ہے اور آیت سال سائل الخ، میں ہے ۔ غرض دس سے اوپر اوپر آیتیں اس بیان میں ہیں ۔ عمرو بن عاص جنگ احد میں اپنے گھوڑے پر سوار تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لا یا ہوا دین حق ہے تو مجھے مریے گھورے سمیت زمین میں دھنسا دے گو اس امت کے بع وقوفوں نے یہ تمنا کی لیکن اللہ نے اس امت پر رحم فرمایا اور جواب دیا کہ ایک تو پیغمبر کی موجودگی عام عذاب سے مانع ہے دوسرے تم لوگوں کا استغفار ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بیان ہے کہ مشرک حج میں طواف کے وقت کہتے تھے لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے بس بس لیکن وہ پھر کہتے الا شریک ھو لک تملیکہ و ما ملک یعنی ہم حاضر ہیں اے اللہ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ پھر کہتے ہاں وہ شریک جو خود بھی تیری ملکیت میں ہیں اور جن چیزوں کو وہ مالک ہیں ان کا بھی اصل مالک تو ہی ہے اور کہتے غفوانک غفوانک اے اللہ ہم تجھ سے استغفار کرتے ہیں اے اللہ تو ہمیں معاف فرما ۔ اسی طلب بخشش کو عذاب کے جلد نہ آنے کا سبب بتایا گیا ہے ۔ فرماتے ہیں ان میں دو سبب تھے ایک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے استغفار پس آپ تو چل دیئے اور استغفار باقی رہ گیا قرشی آپ سمیں کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اللہ نے ہم میں سے ہم پر بزرگ بنایا اے اللہ اگر یہ سچا ہے تو تو ہمیں عذاب کر ۔ جب ایمان لائے تو اپنے اس قول پر برا ہی نادم ہوئے اور استغفار کیا اسی کا بیان دوسری آیت میں ہے ۔ پس انبیاء کی موجودگی میں قوموں پر عذاب نہیں آتا ہاں وہ نکل جائیں پھر عذاب برس پڑتے ہیں اور چونکہ ان کی قسمت میں ایمان تھا اور بعد از ایمان وہ استغفار اہل مکہ کے لئے باعث امن و امان تھا ۔ ان دو وجہ امن میں سے ایک تو اب نہ رہا دوسرا اب بھی موجود ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مجھ پر دو امن میری امت کیلئے اترے ہیں ایک میری موجودگی دوسرے ان کا استغفار پس جب میں چلا جاؤ گا تو استغفار قیامت تک کیلئے ان میں چھوڑ جاؤں گا ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ شیطان نے کہا اے اللہ مجھے تیری عزت کی قسم میں تو جب تک تیرے بندوں کے جسم میں روح ہے انہیں بہکاتا رہوں گا ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا مجھے بھی میری جلالت اور میری بزرگی کی قسم جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے میں بھی انہیں بخشتا رہوں گا (مستدرک حاکم) مسند احمد میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بندہ اللہ کے عذابوں سے امن میں رہتا ہے جب تک وہ اللہ عزوجل سے استغفار کرتا ہے ۔