وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿34﴾
‏ [جالندھری]‏ اور (اب) انکے لئے کونسی وجہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے جبکہ وہ مسجد محترم (میں نماز پڑھنے) سے روکتے ہیں؟ اور وہ اس مسجد کے متولی بھی نہیں۔ اس کے متولی صرف پرہیزگار ہیں۔ لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ارشاد ہے کہ فی الواقع یہ کفار عذابوں کے لائق ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی سے عذاب رکے ہوئے ہیں چنانچہ آپ کی ہجرت کے بعد ان پر عذاب الٰہی آیا ۔ بدر کے دن ان کے تمام سردار مار ڈالے گئے یا قید کر دیئے گئے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ٰ نے انہیں استغفار کی ہدایت کی کہ اپنے شرک و فساد سے ہٹ جائیں اور اللہ سے معاف طلب کریں ۔ کہتے ہیں کہ وہ لوگ معافی نہیں مانگتے تھے ورنہ عذاب نہ ہوتا ۔ ہاں ان میں جو کمزر مسلمان رہ گئے تھے اور ہجرت پر قادر نہ تھے وہ استغفار میں لگے رہتے تھے اور ان کی ان میں موجودگی اللہ کے عذابوں کے رکنے کا ذریعہ تھی چنانچہ حدیبیہ کے واقعہ کا ذکر کرت یہوئے ارشاد الٰہی ہے ھم الذین کفروا الخ، یعنی یہ مکے والے ہی تو وہ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تمہیں مسجد حرام سے روکا اور قربانی کے جانوروں کو بھی نہ آنے دیا کہ وہ جہاں تھے وہیں رکے کھڑے رہے اور اپنے حلالا ہونے کی جگہ نہ پہنچ سکے ۔ اگر شہر مکہ میں کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں ایسی نہ ہوتیں کہ تم ان کے حال سے واقف نہیں تھے، اور عین ممکن تھا کہ لڑائی کی صورت میں تم انہیں بھی پامال کر ڈالتے اور نادانستہ ان کی طرف سے تمہیں نقصان پہنچ جاتا تو بیشک تمہیں اسی وقت لڑائی کی اجازت مل جاتی ۔ اس وقت کی صلح اس لئے ہے کہ اللہ جسے جاہے اپنی رحمت میں لے لے ۔ اگر مکے میں رکے ہوئے مسلمان وہاں سے کہیں تل جاتے تو یقینا ان کافروں کو درد ناک مار مری جاتی ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی اہل مکہ کے لئے باعث امن رہی پھر حضور کی ہجرت کے بعد جو ضعیف مسلمان وہاں رہ گئے تھے اور استغفار کرتے رہے تھے ، ان کی موجودگی کی وجہ سے عذاب نہ آیا جب وہ بھی مکے سے نکل گئے تب یہ آیت اتری کہ اب کوئی مانع باقی نہ رہا پس مسلمانوں کو مکے پر چڑھائی کرنے کی اجازت مل گئی اور یہ مفتوح ہوئے ۔ ہاں ایک قول یہ بھی ہے کہ اگر مراد ان کا خود کا استغفار ہو تو اس آیت نے پہلی آیت کو منسوخ کر دیا ۔ چنانچہ حسن بصری وغیرہ کا یہ قول بھی ہے کہ اہل مکہ سے جنگ بھی ہوئی ، انہیں ضرور بھی پہنچے ، ان پر قحط سالیاں بھی آئیں پس ان مشرکوں کا اس آیت میں استثنا کر لیا گیا ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب کیوں نہ ہوں؟ یہ مومن لوگوں کو کعبتہ اللہ میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں جو مومن بوجہ اپنی کمزوری کے اب تک مکہ میں ہی ہیں اور ان کے سوار اور مومنوں کو بھی طواف و نماز سے روکتے ہیں حالانکہ اصل اہلیت ان ہی میں ہے ۔ ان مشرکوں میں اس کی اہلیت نہیں جیسے فرمان ہے ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ الخ، مشرکین اللہ کے گھروں کی آبادی کے اہل نہیں وہ تو کفر میں مبتلا ہیں ان کے اعمال اکارت ہیں اور وہ ہمیشہ کے جہنمی ہیں ۔ مسجدوں کی آبادی کے اہل اللہ پر ، قیامت پر ایمان رکھنے والے ، نمازی ، زکوۃ ادا کرنے والے ، صرف خوف الٰہی رکھنے والے ہی ہیں اور وہی راہ یافتہ لوگ ہیں اور آیت میں ہے کہ راہ رب سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا، مسجد حرام کی بےحرمتی کرنا اور اس کے لائق لوگوں کو اس سے نکالنا اللہ تعالٰی کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ آپ کے دوست کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ہر ایک پرہیزگار اللہ سے ڈرنے والا پھر آپ نے پڑھا ان اولیاء الا المتقون مستدرک حاکم میں ہے کہ حضور نے قریشیوں کو جمع کیا پھر پوچھا کہ تم میں اس وقت کوئی اور تو نہیں؟ انہوں نے کہا بہنوں کی اولاد اور حلیف اور مولیٰ ہیں ۔ فرمایا یہ تینوں تو تم میں سے ہی ہیں ۔ سنو تم میں سے میرے دوست وہی ہیں جو تقوے اور پرہیز گاری والے ہوں پس اللہ کے اولیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور کل مجاہد خواہ وہ کوئی ہو اور کہیں کے ہوں ۔ پھر ان کی ایک اور شرارت اور بےڈھنگا پن بیان فرماتا ہے ۔ کعبے میں آ کر کیا کرتے ہیں؟ یا تو جانروں کی سی سیٹیاں بجاتے ہیں، منہ میں انگلیاں رکھین اور سیتیاں شروع کریں یا تالیاں پیٹنے لگے ۔ طواف کرتے ہیں تو ننے ہو کر ، رخسار جھکا کر ، سیٹی بجائی ، تالی بجائی، چلئے نماز ہو گئی ۔ کبھی رخسار زمین پر لٹکا لیا ۔ بائیں طرف سے طواف کیا ۔ یہ بھی مقصود تھا کہ حضور کی نماز بگاڑیں ، مومنوں کا مذاق اڑائیں ، لوگوں کو راہ رب سے روکیں ۔ اب اپنے کفر کا بھر پور پھل چکھو ، بدر کے دن قید ہو کے قتل ہوئے، تولار چلی ، چیخ اور زلزلے آئے ۔