إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿42﴾
‏ [جالندھری]‏ جس وقت تم (مدینے سے) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نیچے (اتر گیا) تھا اور اگر تم (جنگ کے لئے) آپس میں قرارداد کر لیتے تو وقت معین (پر جمع ہونے) میں تقدیم وتاخیر ہو جاتی۔ لیکن خدا کو منظور تھا کہ جو کام ہو کر رہنے والا تھا اُسے ہی کر ڈالے۔ تاکہ جو مرے بصیرت پر (یعنی یقین جان کر) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر (یعنی حق پہچان کر) جیتا رہے اور کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا جانتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ تعالی نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا
فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکے کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہو جاتے ۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہو جائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا۔ چنانچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے ۔ ابوسفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابوجہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکے سے نکلا ۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہو گئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بےخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی ۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی ۔ ادھر ابوسفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجورں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمھارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابوجہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا ۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں ۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالٰی نے تمہارے مال محفوظ کر دیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے ۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کر دیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا ۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہدیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ٠ ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے ۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک؟ انہوں نے کہا تعداد توہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتا سکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں ۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابو البختری بن ہشام، حکیم بن حزام ، نوفل ، طعیمہ بن عدی، نضر بن حارث، زمعہ بن اسود، ابوجہل ، امیہ بن خلف ، منبہ بن حجاج، سہیل بن عمرو، عمرو بن عبدود۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکے نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں ۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنا دیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کودیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے ۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابوبکر تھے اور کوئی نہ تھا ۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالٰی یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں ۔ باری تعالٰی تو انہیں پست و ذلیل کر ۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں ۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط و قرار داد کے اللہ تعالٰی نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے ۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہو جائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے( آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ، ) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنا دیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے ۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالٰی تمہارے تضرع و زاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے ۔