وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ﴿50﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں۔ ان کے منہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ (اب) عذاب آتش (کامزہ) چکھو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
کفار کے لیے سکرات موت کا وقت بڑا شدید ہے۔ 
کاش کہ تو اے پیغمبر دیکھتا کے فرشتے کس بری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں وہ اس وقت ان کے چہروں اور کمروں پر مارتے ہیں اور کہتے ہیں آگ کا عذاب اپنی بداعمالیوں کے بدلے چکھو۔ یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ بھی بدر کے دن کا ہے کہ سامنے سے ان کافروں کے چہروں پر تلواریں پڑتی تھیں اور جب بھاگتے تھے تو پیٹھ پر وار پڑتے تھے فرشتے انکا خوب بھرتہ بنا رہے تھے۔ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میں نے ابوجہل کی پیٹھ پر کانٹوں کے نشان دیکھے ہیں آپ نے فرمایا ہاں یہ فرشتوں کی مار کے نشان ہیں۔ حق یہ ہے کہ یہ آیت بدر کے ساتھ مخصوص تو نہیں الفاظ عام ہیں ہر کافر کا یہی حال ہوتا ہے۔ سورہ قتال میں بھی اس بات کا بیان ہوا ہے اور سورہ انعام کی (آیت ولو ترا اذا لمجرمون فی غمرات الموت الخ،) میں بھی اس کا بیان مع تفسیر گذر چکا ہے۔ چونکہ یہ نافرمان لوگ تھے ان کی موت سے بدن میں چھپتی پھرتی ہیں جنہیں فرشتے جبراً گھسیٹا جاتا ہے جس طرح کسی زندہ شخص کی کھال کو اتارا جائے اسی کے ساتھ رگیں اور پٹھے بھی آجاتے ہیں۔ فرشتے اس سے کہتے ہیں اب جلنے کا مزہ چکھوں۔ یہ تمہاری دینوی بد اعمالی کی سزا ہے اللہ تعالٰی ظالم نہیں وہ تو عادل حاکم ہے۔ برکت و بلندی ، غنا، پاکیزگی والا بزرگ اور تعریفوں والا ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے کہ میرے بندو میں نے اپنے اوپر ظلم حرام کر لیا ہے اور تم پر بھی حرام کر دیا ہے پس آپس میں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے میرے غلاموں میں تو صرف تمہارے کئے ہوئے اعمال ہی کو گھرے ہوئے ہوں بھلائی پاکر میری تعریفیں کرو اور اس کے سوا کچھ اور دیکھو تو اپنے تئیں ہی ملامت کرو۔