ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿53﴾
‏ [جالندھری]‏ یہ اس لئے کہ جو نعمت خدا کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے دلوں کی حالت نہ بدل ڈالیں خدا اُسے نہیں بدلا کرتا۔ اور اس لئے کہ خدا سُنتا جانتا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں 
اللہ تعالٰی کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہو سکتا ہے۔ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالٰی نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا۔