كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ ﴿8﴾
‏ [جالندھری]‏ (بھلا ان سے عہد) کیونکر (پورا کیا جائے جب اُنکا حال یہ ہے) کہ اگر تم پر غلبہ پالیں تو نہ قرابت کا لحاظ کریں نہ عہد کا؟ یہ منہ سے تو تمہیں خوش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل (ان باتوں کو قبول نہیں کرتے) اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
کافروں کی دشمنی 
اللہ تعالٰی کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں۔ ان سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں۔ آل کے معنی قرابت داری کے ہیں۔ ابن عباس سے بھی یہی مروی ہے اور حضرت حسان کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا۔ یہی لفظ ال ایل بن کر جبریل میکائیل اور اسرافیل میں آیا ہے یعنی اس کا معنی اللہ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ مجاہد کہتے ہیں مراد عہد ہے قتادہ کا قول ہے مراد قسم ہے۔