أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿16﴾
‏ [جالندھری]‏ کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ (بے آزمائش) چھوڑ دیے جاؤ گے؟ اور ابھی تو خدا نے ایسے لوگوں کو متمیز کیا ہی نہیں جنہوں نے تم سے جہاد کئے اور خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے سوا کسی کو دلی دوست نہیں بنایا۔ اور خدا تمہارے (سب) کاموں سے واقف ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مسلمان بھی آزمائے جائیں گے 
یہ نا ممکن ہے کہ امتحان بغیر مسلمان بھی چھوڑ دیئے جائیں سچے اور جھوٹے مسلمان کو ظاہر دینا ضروری ہے ولیجہ کے معنی بھیدی اور دخل دینے والے کے ہیں۔ پس سچے وہ ہیں جو جہاد میں آگے بڑھ کر حصہ لیں اور ظاہر باطن میں اللہ رسول کی خیر خواہی اور حمایت کریں ایک قسم کا بیان دوسری قسم کو ظاہر کر دیتا تھا اس لیے دوسری قسم کے لوگوں کا بیان چھوڑ دیا۔ ایسی عبارتیں شاعروں کے شعروں میں بھی ہیں ایک جگہ قرآن کریم ہے کہ کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ صرف یہ کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش ہوگی ہی نہیں حالانکہ اگلے مومنوں کی بھی ہم نے آزمائش کی یاد رکھو اللہ سچے جھوٹوں کو ضرور الگ الگ کر دے گا اور آیت میں اسی مضمون کو (آیت ام حسبتم ان تدخلو الجنتہ الخ ،) کے لفظوں سے بیان فرمایا ہے۔ اور آیت میں ہے ( آیت ماکان اللّٰہ لیذر المومنین الخ،) اللہ ایسا نہیں کہ تم مومنوں کو تمہاری حالت پر ہی چھوڑ دے اور امتحان کر کے یہ نہ معلوم کر لے کہ خبیث کون ہے اور طیب کون ہے؟ پس جہاد کے مشروع کرنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجاتی ہے گواللہ تعالی ہر چیز سے واقف ہے ۔ جو ہوگا وہ بھی اسے معلوم ہے اور جو نہیں ہوا وہ جب ہوگا، تب کس طرح ہوگا یہ بھی وہ جانتا ہے چیز کے ہو نے سے پہلے ہی اسے اس کا علم حاصل ہے اور ہر چیز کی ہر حالت سے وہ واقف ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ دنیا پر بھی کھرا کھوٹا سچا جھوٹا ظاہر کر دے اس کے سوا کوئی معبود نہیں نہ اس کے سوا کوئی پروردگار ہے نہ اس کی قضا و قدر اور ارادے کو کوئی بدل سکتا ہے۔