يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿34﴾
‏ [جالندھری]‏ مومنو! (اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) راہ خدا سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو خدا کے راستے میں خرچ نہیں کرتے انکو اس دن کے عذاب الیم کی خبر سُنا دو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصاریٰ کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ (آیت لولا ینھاھم الربانیون والاحبار الخ) میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس۔ اس آیت میں کہا گیا ہے(آیت ذالک بان منھم قسسین ورھبانا) آیت کا مقصود لوگوں کو بڑے علماء اور گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔ حضرت سفیان بن عینیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور ہم مسلمانوں میں صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔ صحیح حدیث شریف میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے۔ ایسی پوری مشابہت ہو گی کہ ذرا بھی فرق نہ رہے گا لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ نے فرمایا ہاں انہی کی روش پر اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہیں؟ پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے ہر ممکن بچنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہ اس وجاہت سے ریاست و منصب حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کا مال غصب کرنا چاہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا۔ ان کے تحفے، ہدیئے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہوگئے۔ یہ حرام خور جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل سے خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔ جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔ عالموں اور صوفیوں یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کرنے کے بعد اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ حضرت ابن المبارک رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ 
وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا 
یعنی دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے ناپاک طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔ کنز اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوۃ ادا کی جاتی ہو۔ حضرت ابن عمر سے یہی مروی ہے بلکہ فرماتے ہیں جس مال کی زکوۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں بغیر زکوۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔ آپ کے صاحبزادے حضرت عبداللہ سے مروی ہے کہ یہ زکوۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا۔ خلیفہ برحق حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ اور عراک بن مالک نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی(آیت خذ من اموالھم الخ،) نے منسوخ کر دیا ہے۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں کہ تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے۔ لیکن یہ قول غریب ہے۔ مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سونے چاندی والوں کے لئے ہلاکت ہے تین مرتبہ آپ کا یہی فرمان سن کر صحابہ پر شاق گذرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔ مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ نے آپس میں چرچا کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا لو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر آتا ہوں اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لئے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ حضرت عمر کے پیچھے ہی پیچھے حضرت ثوبان بھی تھے۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے زکوۃ اسی لئے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے۔ میراث کے مقرر کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔ آپ نے فرمایا لو اور سنو میں تمہیں بہترین خزانہ بتاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو اس کی ناموس کی حفاظت کرے۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں مجھے برا معلوم ہو آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔ اللھم انی اسئلک الثبات فی الامر والعزیمۃ علی الرشد واسئلک شکر نعمتک واسئلک حسن عبادتک واسئلک قلباسلیماواسئلک لساناصادقاواسئلک من خیر ماتعلم واعوذبک من شرماتعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب (ترجمہ) یعنی یا اللہ میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکر اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس کی پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب جاننے والا ہے۔ آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو خرچ نہ کرنے والے اور اسے بچا بچا کر رکھنے والے درد ناک عذاب دیئے جائیں گے۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ گرم پانی کا تریڑ دوزخیوں کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے ہو بدلہ اس کا یہ ہے۔ ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ کی اطاعت سے اسے مقدم رکھے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لئے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور وہ اس میں جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے۔ بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔ مرفوعاً بھی یہ روایت آئی ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔ واللہ اعلم۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے جو عضو سامنے آجائے گا اسی کو چبا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑا جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ۔ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ امام بخاری اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟ آپ نے فرمایا ہم شام میں تھے وہاں میں نے( آیت والذین یکنزون الخ،) کی تلاوت کی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا ہماری اور ان کے سب کے حق میں ہے۔ اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ جب مدینے پہنچا تو چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینے میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا۔ آخر میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے۔ اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔ حضرت معاویہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلافت سے شکایت کی امیر المومنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا آپ وہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے قبل سب ادھر ادھر راہ اللہ خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لئے بھجوائی تھیں میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں وہ واپس کیجئے آپ نے فرمایا تم پر آفرین ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔ ابن عباس بھی اس آیت کا حکم عام بتاتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے ۔ احنف بن قیس فرماتے ہیں میں مدینے میں آیا دیکھا کہ قریشیوں کی ایک جماعت محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے موٹے جھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حالت میں اور آتے ہی کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے سب لوگ سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گذرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لئے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔ غالباً اسی حدیث کی وجہ سے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا واللہ اعلم۔ ایک مرتبہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات درہم بچ رہے حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو حضرت عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو کام نہ اٹکے آپ نے فرمایا نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لئے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔ ابن عساکر میں ہے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔ انہوں نے پوچھا یہ کس طرح؟ فرمایا سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ انہوں نے کہا یہ کیسے ہو سکے گا آپ نے فرمایا یہی ہے ورنہ آگ ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم پس انداز کئے ہوئے نکلے آپ نے فرمایا یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا آپ نے فرمایا ایک داغ آگ کا پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ نے فرمایا یہ دو داغ آگ کے ہیں فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے، ایک ایک تختی آگ کی بنائی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کر ٹھوڑی تک اس کے جسم میں اس آگ سے داغ کئے جائیں گے۔ آپ کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور پہلو اور کمر پر اس سے داغ دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لئے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو اس کا راوی ضعیف کذاب و متروک ہے۔