إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿40﴾
‏ [جالندھری]‏ اگر تم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو خدا ان کا مددگار ہے (وہ وقت تم کو یاد ہوگا) جب انکو کافروں نے گھر سے نکال دیا (اس وقت) دو (ہی شخص تھے جن) میں (ایک ابوبکر رضی اللہ تھے) دوسرے (خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) جب وہ دونوں غار (ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو خدا ہمارے ساتھ ہے۔ تو خدا نے ان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کردیا۔ اور بات تو خدا ہی کی بلند ہے اور خدا زبردست (اور) حکمت والا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
آغاز ہجرت
تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں۔ میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں۔ یاد رکھو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ کے قتل، قید یا دیس نکالا دینے کی سازش کی تھی اور آپ اپنے سچے ساتھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ شریف سے بحکم الٰہی تیز رفتاری سے نکلے تھے تو کون ان کا مددگار تھا؟ تین دن غار میں گذارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ شریف کا راستہ لیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم کو کوئی ایذاء پہنچائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالٰی ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابوبکر بن ابوقحافہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا آپ نے فرمایا ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ ہے۔ الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالٰی نے آپ کی مدد فرمائی۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالٰی نے اپنی تسکین نازل فرمائی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی یہی تفسیر ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں۔ اسلئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا۔ شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لئے۔ دوسرا حمیت قومی کے لئے، تیسرا لوگوں کو خشو کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو کلمہ حق کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ راہ حق کا مجاہد ہے اللہ تعالٰی انتقام لینے پر غالب ہے۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی روک سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے۔ کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے۔ اس کے سب اقوال افعال حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں۔ تعالٰی شانہ وجد مجدہ۔