وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ ﴿49﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ان میں کوئی ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے تو اجازت ہی دیجئے۔ اور آفت میں نہ ڈالئے۔ دیکھو یہ آفت میں پڑگئے ہیں اور دوزخ سب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
جد بن قیس جیسے بدتمیزوں کا حشر
جد بن قیس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سال نصرانیوں کے جلا وطن کرنے میں تو ہمارا ساتھ دے گا؟ تو اس نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو معاف رکھئے میری ساری قوم جانتی ہے کہ میں عورتوں کا بےطرح شیدنائی ہوں عیسائی عورتوں کو دیکھ کر مجھ سے تو اپنا نفس روکا نہ جائے گا۔ آپ نے اس سے منہ موڑ لیا اسی کا بیان اس آیت میں ہے کہ اس منافق نے یہ بہانہ بنایا حالانکہ وہ فتنے میں تو پڑا ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑنا جہاد سے منہ موڑنا یہ کہ کیا کم فتنہ ہے؟ یہ منافق بنو سلمہ قبیلے کا رئیس اعظم تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس قبیلے کے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ تو انہوں نے کہا جد بن قیس جو بڑا ہی شوم اور بخیل ہے۔ آپ نے فرمایا بخل سے بڑھ کر اور کیا بری بیماری ہے؟ سنو اب سے تمہارا سردار نوجوان سفید اور خوبصورت حضرت بشر بن برا بن معرور ہیں۔ جہنم کافروں کو گھیر لینے والی ہے نہ اس سے وہ بچ سکیں نہ بھاگ سکیں نہ نجات پا سکیں۔