فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ ﴿81﴾
‏ [جالندھری]‏ جو لوگ (غزوہ تبوک میں) پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم (کی مرضی) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے اور اس بات کو ناپسند کیا کہ (خدا کی راہ میں) اپنے مال اور جان سے جہاد کریں۔ اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا (ان سے) کہہ دو کہ دوزخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے۔ کاش یہ (اس بات کو) سمجھتے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
جہنم کی آگ کالی ہے 
جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں۔ پس اللہ تعالٰی ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جز ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہو گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے۔ ایک بار آپ نے( آیت وقودھا الناس والحجارۃ) کی تلاوت کی اور فرمایا ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے۔ ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں۔ اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کی تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے۔ اور کئی آیتوں میں ہے ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا۔ جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے۔ وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم ان کھالوں کے بدلے اور کھالیں بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں۔ اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے۔ تو یقینا یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے۔ اب اللہ تبارک و تعالٰی ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہیں رہیں گے، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہوگا۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے۔ اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں، ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو۔ چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے۔