فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ ﴿83﴾
‏ [جالندھری]‏ پھر اگر خدا تم کو ان میں سے کسی گروہ کی طرف لیجائے اور وہ تم سے نکلنے کی اجازت طلب کریں تو کہہ دینا کہ تم میرے ساتھ ہرگز نہیں نکلو گے۔ اور نہ میرے ساتھ (مددگار ہو کر) دشمن سے لڑائی کرو گے۔ تم پہلی دفعہ بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے تو اب بھی پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مکاروں کی سزا 
فرمان ہے کہ جب اللہ تعالٰی تجھے سلامتی کے ساتھ اس غزوے سے واپس مدینے پہنچا دے اور ان میں سے کوئی جماعت تجھ سے کسی اور غزوے میں تیرے ساتھ چلنے کی درخواست کرے تو بطور ان کو سزا دینے کے تو صاف کہدینا کہ نہ تو تم میرے ساتھ والوں میں میرے ساتھ چل سکتے ہو نہ تم میری ہمراہی میں دشمنوں سے جنگ کر سکتے ہو۔ تم جب موقعہ پر دغا دے گئے اور پہلی مرتبہ ہی بیٹھ رہے تو اب تیاری کے کیا معنی؟ پس یہ آیت مثل( ونقلب افئدتھم وابصارھم کمالم یومنوا بہ اول مرۃ الخ، ) کے ہے بدی کا برا بدلہ بدی کے بعد ملتا ہے جیسے کہ نیکی کی جزاء بھی نیکی کے بعد ملتی ہے۔ عمرہ حدیبیہ کے وقت قرآنی نے فرمایا تھا۔( آیت سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مخانم الخ،) یعنی جب تم غنیمتیں لینے چلو گے یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ تم سے کہیں گے کہ ہمیں اجازت دو ہم بھی تمہارے ساتھ ہو لیں۔ یہاں فرمایا کہ ان سے کہدینا کہ بیٹھ رہنے والوں میں ہی تم بھی رہو۔ جو عورتوں کی طرح گھروں میں گھسے رہتے ہیں۔