وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ ﴿86﴾
‏ [جالندھری]‏ اور جب کوئی سُورت نازل ہوتی ہے کہ خدا پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر لڑائی کرو۔ تو جو ان میں دولت مند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں تو رہنے ہی دیجئے کہ جو لوگ گھروں میں رہیں گے ہم بھی انکے ساتھ رہیں ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ان لوگوں کی برائی بیان ہو رہی ہے جو وسعت طاقت قوت ہونے کے باوجود جہاد کے لئے نہیں نکلتے جی چراجاتے ہیں اور حکم ربانی سن کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کے پاس آ آ کر اپنے رک رہنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ ان کی بےحمیتی تو دیکھو کہ یہ عورتوں جیسے ہوگئے ہیں لشکر چلے گئے، یہ نامرد زنانے عورتوں کی طرح پیچھے رہ گئے۔ بوقت جنگ بزدل ڈرپوک اور گھروں میں گھسے رہنے والے، بوقت امن بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے۔ یہ بھونکنے والے کتوں اور گرجنے والے بادلوں کی طرح ڈھول کے پول ہیں۔ چنانچہ اور جگہ خود قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ خوف کے وقت ایسی آنکھیں پھیرنے لگتے ہیں جیسے کوئی مر رہا ہو اور جہاں وہ موقع گذر گیا لگے چرب زبانی کرنے اور لمبے چوڑے دعوے کرنے، باتیں بنانے۔ امن کے وقت تو مسلمانوں میں فساد پھلانے لگتے ہیں اور وہ بلند بانگ بہادری کے ڈھول پیٹتے ہیں کہ کچھ ٹھیک نہیں لیکن لڑائی کے وقت عورتوں کی طرح چوڑیاں پہن کر پردہ نشین بن جاتے ہیں، بل اور سوراخ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے تیئں چھپاتے پھرتے ہیں۔ ایمان دار تو سورت اترنے اور اللہ کے حکم ہونے کا انتظار کرتے ہیں لیکن بیمار دلوں والے منافق جہاں سورت اتری اور جہاد کا حکم سنا آنکھیں بند کرلیں دیدے پھیر لئے ان پر افسوس ہے اور ان کے لئے تباہی خیز مصیبت ہے۔ اگر یہ اطاعت گذار ہوتے تو ان کی زبان سے اچھی بات نکلتی ان کے ارادے اچھے ہوتے یہ اللہ کی باتوں کی تصدیق کرتے تو یہی چیز ان کے حق میں بہتر تھی لیکن ان کے دلوں پر تو ان کی بداعمالیوں سے مہر لگ چکی ہے اب تو ان میں اس بات کی صلاحیت بھی نہیں رہی کہ اپنے نفع نقصان کو ہی سمجھ لیں۔