لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿91﴾
‏ [جالندھری]‏ نہ تو ضعیفوں پر کچھ گناہ ہے اور نہ بیماروں پر اور نہ ان پر جنکے پاس خرچ موجود نہیں (کہ شریک جہاد ہوں یعنی) جبکہ خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خیر اندیش (اور دل سے اُنکے ساتھ) ہوں۔ نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے۔ اور خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عدم جہاد کے شرعی عذر
اس آیت میں ان شرعی عذروں کا بیان ہو رہا ہے جن کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص جہاد میں نہ جائے تو اس پر شرعی حرج نہیں۔ پس ان سببوں میں سے ایک قسم تو وہ ہے جو لازم ہوتی ہے کسی حالت میں انسان سے الگ نہیں ہوتیں جیسے پیدائشی کمزوری یا اندھا پن یا لنگڑا پن کوئی لولا لنگڑا یا اپاہج بیمار یا بالکل ہی نا طاقت ہو۔ دوسری قسم کے وہ عذر ہوتے ہیں جو کبھی ہیں اور کبھی نہیں اتفاقیہ اسباب میں مثلاً کوئی بیمار ہو گیا ہے یا بالکل فقیر ہو گیا ہے، سامان سفر سامان جہاد مہیا نہیں کر سکتے وغیرہ پس یہ لوگ شرکت جہاد نہ کر سکں تو ان پر شرعاً کوئی مواخذہ گناہ یا عار نہیں لیکن انہیں اپنے دل میں صلاحیت اور خلوص رکھنا چاہئے۔ مسلمانوں کے، اللہ کے دین کے خیر خواہ بنے رہیں اوروں کو جہاد پر آمادہ کریں۔ بیٹھے بیٹھے جو خدمت مجاہدین کی انجام دے سکتے ہوں دیتے رہیں۔ ایسے نیک کاروں پر کوئی وجہ الزام نہیں۔ اللہ بخشنے والا مہربان ہے حواریوں نے عیسیٰ نبی اللہ سے پوچھا کہ ہمیں بتائیے اللہ کا خیر خواہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے حق کو لوگوں کے حق پر مقدم کرے اور جب ایک کام دین کا اور ایک دنیا کا آ جائے تو دینی کام کی اہمیت کا پورا لحاظ رکھے پھر فارغ ہو کر دنیوی کام کو انجام دے۔ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر لوگ نماز استسقاء کیلئے میدان میں نکلے ان میں حضرت بلال بن سعد بھی تھے آپ نے کھڑے ہو کر اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی پھر فرمایا اے حاضرین کیا تم یہ مانتے ہو کہ تم سب اللہ کے گنہگار بندے ہو؟ سب نے اقرار کیا۔ اب آپ نے دعا شروع کی کہ پروردگار ہم نے تیرے کلام میں سنا پڑھا ہے کہ نیک بندوں پر کوئی مشکل نہیں۔ ہم اپنی برائیوں کا اقرار کرتے ہیں پس تو ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم پر اپنی رحمت سے بارشیں برسا اب آپ نے ہاتھ اٹھائے اور آپ کے ساتھ ہی اور سب نے بھی ہاتھ اٹھائے رحمت الٰہی جوش میں آئی اور اسی وقت جھوم جھوم کر رحمت کی بدلیاں برسنے لگیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا سورہ برات جب اتر رہی تھی میں اسے بھی لکھ رہا تھا میرے کان میں قلم اڑا ہوا تھا جہاد کی آیتیں اتر رہی تھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم منتظر تھے کہ دیکھیں کہ اب کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ اتنے میں ایک نابینا صحابی آئے اور کہنے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاد کے احکام اس اندھاپے میں کیسے بجا لا سکتا ہوں؟ اسی وقت یہ آیت اتری۔ پھر ان کا ذکر ہوتا ہے جو جہاد کی شرکت کے لئے تڑپتے ہیں مگر قدرتی اسباب سے مجبور ہو کر بادل ناخواستہ رک جاتے ہیں۔ جہاد کا حکم ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہوا مجاہدین کا لشکر جمع ہونا شروع ہوا تو ایک جماعت آئی جن میں حضرت عبداللہ بن مغفل بن مقرن مزنی وغیرہ تھے انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سواریاں نہیں آپ ہماری سواریوں کا انتظام کر دیں تاکہ ہم بھی راہ حق میں جہاد کرنے اور آپ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کریں۔ آپ نے جواب دیا کہ واللہ میرے پاس تو ایک بھی سواری نہیں۔ یہ نا امید ہو کر روتے پیٹتے غم زدہ اور رنجیدہ ہو کر لوٹے ان پر اس سے زیادہ بھاری بوجھ کوئی نہ تھا کہ یہ اس وقت ہم رکابی کی اور جہاد کی سعادت سے محروم رہ گئے اور عورتوں کی طرح انہیں یہ مدت گھروں میں گذارنی پڑے گی نہ ان کے پاس خود ہی کچھ ہے نہ کہیں سے کچھ ملتا ہے پس جناب باری نے یہ آیت نازل فرما کر ان کی تسکین کر دی۔ یہ آیت قبیلہ مزینہ کی شاخ بنی مقرن کے بارے میں اتری ہے۔ محمد بن کعب کا بیان ہے کہ یہ سات آدمی تھے بنی عمرو کے سالم بن عوف، بنی واقف کے حرمی بن عمرو، بنی مازن کے عبدالرحمن بن کعب، بنی معلی کے فضل اللہ، بنی سلمہ کے عمرو بن عثمہ اور عبداللہ بن عمرو مزنی اور بنو حارثہ کے علیہ بن زید۔ بعض روایتوں میں کچھ ناموں میں ہیر پھیر بھی ہے۔ انہی نیک نیت بزرگوں کے بارے میں اللہ کے رسول، رسولوں کے سرتاج صلی اللہ علیہ وسلم آلہ و اصحابہ و ازوجہ و اہل بیتہ و سلم کا فرمان ہے کہ اے میرے مجاہد ساتھیو تم نے مدینے میں جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے ہیں ان میں وہ بھی ہیں کہ تم جو خرچ کرتے ہو جس میدان میں چلتے ہو جو جہاد کرتے ہو سب میں وہ بھی ثواب کے شریک ہیں۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر صحابہ نے کہا وہ باوجود اپنے گھروں میں رہنے کے ثواب میں ہمارے شریک ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس لئے کہ وہ معذور ہیں عذر کے باعث رکے ہیں۔ ایک اور آیت میں ہے انہیں بیماریوں نے روک لیا ہے۔ پھر ان لوگوں کا بیان فرمایا جنہیں فی الوقت کوئی عذر نہیں مالدار ہٹے کٹے ہیں۔ لیکن پھر بھی سرکار نبوت میں آ کر بہانے تراش تراش کر جہاد میں ساتھ نہیں دیتے۔ عورتوں کی طرح گھر میں بیٹھ جاتے ہیں، زمین پکڑ لیتے ہیں۔ فرمایا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ کی مہر لگ چکی ہے۔ اب وہ اپنے بھلے برے کے علم سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔