وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿102﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کچھ اور لوگ ہیں کہ اپنے گناہوں کا (صاف) اقرار کرتے ہیں۔ انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو ملا جُلا دیا تھا۔ قریب ہے کہ خدا ان پر مہربانی سے توجہ فرمائے۔ بیشک خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
تساہل اور سستی سے بچو 
منافقوں کا حال اوپر کی آیتوں میں بیان فرمایا جواللہ کی راہ میں جہاد سے بے ایمانی، شک اور جھٹلانے کے طور پر جی چراتے ہیں اور شامل نہیں ہوتے۔ اس آیت میں ان کا بیان ہو رہا ہے جو ہیں تو ایمان دار اور سچے پکے مسلمان۔ لیکن سستی اور طلب راحت کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہوئے۔ انہیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے، اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کی نیکیاں بھی ہیں۔ پس یہ نیکی بدی والے لوگ اللہ تعالٰی کے حوالے ہیں اس کی معافی اور درگذر کے ماتحت ہیں۔ یہ آیت گو معین لوگوں کے بارے میں ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے، ہر مسلمان جو نیکی کے ساتھ بدی میں بھی ملوث ہو وہ اللہ کے سپرد ہے۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیت اتری ہے جب کہ انہوں نے بنو قریظہ سے کہا تھا کہ ذبح ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اور روایت میں ہے کہ "ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہ لوگ غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے۔ حضرت ابو لبابہ کے ساتھ اور بھی پانچ یا سات یا نو آدمی تھے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے اپنے تئیں مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا کہ جب تک خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک سے نہ کھولیں گے ہم اس قید سے آزاد نہ ہوں گے جب یہ آیت اتری حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خودان کے بندھن کھولے اور ان سے درگذر فرما لیا۔ بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں " میرے پاس آج رات کو دو آنے والے آئے جو مجھے اٹھا کر لے چلے۔ ہم ایک شہر میں پہنچے جو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ وہاں ہمیں چند ایسے لوگ ملے جنکا آدھا دھڑ تو بہت ہی سڈول، نہایت خوشنما اور خوبصورت تھا اور آدھا نہایت ہی برا اور بدصورت۔ ان دونوں نے ان سے کہا جاؤ اس اس نہر میں غوطہ لگاؤ ۔ وہ گئے اور غوطہ لگا کر واپس آئے وہ برائی ان سے دور ہو گئی تھی اور وہ نہایت خوبصورت اور اچھے ہوگئے تھے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے فرمایا کہ یہ جنت عدن ہے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہے۔ اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی دیکھا یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں کے ساتھ بدیاں بھی ملائے ہوئے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگذر فرما لیا اور انہیں معاف فرمایا۔ " امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو اسی طرح مختصراً ہی روایت کیا ہے۔