وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿106﴾
‏ [جالندھری]‏ اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا کام خدا کے حکم پر موقوف ہے۔ چاہے اُنکو عذاب دے اور چاہے معاف کر دے۔ اور خدا جاننے والا حکمت والا ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اس سے مراد وہ تین بزرگ صحابہ ہیں جن کی توبہ ڈھیل میں پڑ گئی تھی۔ حضرت مرارہ بن ربیع، حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم۔ یہ جنگ تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ شک اور نفاق کے طور پر نہیں بلکہ سستی، راحت طلبی، پھلوں کی پختگی سائے کے حصول وغیرہ کے لئے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے تو اپنے تیئں مسجد کے ستونوں سے باندھ لیا تھا جیسے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ اور کچھ لوگوں نے ایسا نہیں کیا تھا ان میں یہ تینوں بزرگ تھے۔ پس اوروں کی تو توبہ قبول ہو گئی اور ان تینوں کا کام پیچھے ڈال دیا گیا یہاں تک کہ( آیت لقد تاب اللہ الخ،) نازل ہوئی جو اس کے بعد آ رہی ہے۔ اور اس کا پورا بیان بھی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں آ رہا ہے۔ یہاں فرماتا ہے کہ وہ اللہ کے ارادے پر ہیں اگر چاہیں سزا دے اگر چاہیں معافی دے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ سزا کے لائق کون ہے۔ اور مستحق معافی کون ہے؟ وہ اپنے اقوال و افعال میں حکیم ہے۔ اس کے سوا نہ تو کوئی معبود نہ اس کے سوا کوئی مربی۔