إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ ۚ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿111﴾
‏ [جالندھری]‏ خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں (اور اس کے) عوض میں ان کے لئے بہشت (تیار کی) ہے۔ یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے جاتے بھی ہیں۔ یہ تورات اور انجیل اور قرآن میں سچا وعدہ ہے جس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے؟ تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مجاہدین کے لئے استثنائی انعامات 
اللہ تعالٰی خبر دیتا ہے کہ مومن بندے جب راہ حق میں اپنے مال اور اپنی جانیں دیں۔ اللہ تعالٰی اس کے بدلے میں اپنے فضل و کرم اور لطف و رحم سے انہیں جنت عطا فرمائے گا۔ بندہ اپنی چیز جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی ہے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اس کی اطاعت گذاری سے مالک الملک خوش ہو کر اس پر اپنا اور فضل کرتا ہے سبحان اللہ کتنی زبردست اور گراں قیمت پروردگار کیسی حقیر چیز پر دیتا ہے۔ دراصل ہر مسلمان اللہ سے یہ سودا کر چکا ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ اسے پورا کرے یا یونہی اپنی گردن میں لٹکائے ہوئے دنیا سے اٹھ جائے۔ اسی لئے مجاہدین جب جہاد کے لئے جاتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ اسنے اللہ تعالٰی سے بیوپار کیا۔ یعنی وہ خرید و فروخت جسے وہ پہلے سے کر چکا تھا اس نے پوری کی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لیلۃ العقبہ میں بیعت کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے لئے اور اپنے لئے جو چاہیں شرط منوالیں۔ آپ نے فرمایا میں اپنے رب کے لئے تم سے یہ شرط قبول کراتا ہوں کہ اسی کی عبادت کرنا، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرنا۔ اور اپنے لئے تم سے اس بات کی پابندی کراتا ہوں کہ جس طرح اپنی جان ومال کی حفاظت کرتے ہو میری بھی حفاظت کرنا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا جب ہم یونہی کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جنت! یہ سنتے ہی خوشی سے کہنے لگا واللہ اس سودے میں تو ہم بہت ہی نفع میں رہیں گے۔ بس اب پختہ بات ہے نہ ہم اسے توڑیں گے نہ توڑنے کی درخواست کریں گے پس یہ آیت نازل ہوئی یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، نہ اس کی پرواہ ہوتی ہے کہ ہم مارے جائیں گے نہ اللہ کے دشمنوں پر وار کرنے میں انہیں تامل ہوتا ہے، مرتے ہیں اور مارتے ہیں۔ ایسوں کے لئے یقینا جنت واجب ہے۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں نکل کھڑا ہو جہاد کے لئے، رسولوں کی سچائی مان کر، اسے یا تو فوت کر کے بہشت بریں میں اللہ تبارک و تعالٰی لے جاتا ہے یا پورے پورے اجر اور بہترین غنیمت کے ساتھ واپس اسے لوٹاتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے یہ بات اپنے ذمے ضروری کر لی ہے اور اپنے رسولوں پر اپنی بہترین کتابوں میں نازل بھی فرمائی ہے۔ حضرت موسیٰ پر اتری ہوئی تورات میں، حضرت عیسیٰ پر اتری ہوئی انجیل میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اترے ہوئے قرآن میں اللہ کا یہ وعدہ موجود ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین۔ اللہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اللہ سے زیادہ وعدوں کا پورا کرنے والا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ اس سے زیادہ سچائی کسی کی باتوں میں ہوتی ہے۔ جس نے اس خرید و فروخت کو پورا کیا اس کے لئے خوشی ہے اور مبارکباد ہے، وہ کامیاب ہے اور جنتوں کی ابدی نعمتوں کا مالک ہے۔