لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴿117﴾
‏ [جالندھری]‏ بیشک خدا نے پیغمبر پر مہربانی کی اور مہاجرین اور انصار پر جو باوجود اس کے کہ ان میں سے بعضوں کے دل جلد پھر جانے کو تھے۔ مشکل کی گھڑی میں پیغمبر کے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے ان پر مہربانی فرمائی۔ بیشک وہ ان پر نہایت شفقت کرنے والا (اور) مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
تپتے صحرا، شدت کی پاس اور مجاہدین سرگرم سفر مجاہد وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت جنگ تبوک کے بارے میں اتری ہے اس جنگ میں جانے کے وقت سال بھی قحط کا تھا، گرمیوں کا موسم تھا، کھانے پینے کی کمی تھی، راستوں میں پانی نہ تھا۔ شام کے ملک تک کا دور دراز کا سفر تھا۔ سامان رسد کی اتنی کمی کہ دو دو آدمیوں میں ایک ایک کھجور بٹتی تھی۔ پھر تو یہ ہو گیا تھا کہ ایک کھجور ایک جماعت کو ملتی یہ چوس کر اسے دیتا وہ اور کو اور ایک ایک چوس کر پانی پی لیتا۔ پس اللہ تعالٰی نے اپنی رحمت ان پر لازم کر دی اور انہیں واپس لایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس سختی کا سوال ہوا تو آپ نے فرمایا ۔ سخت گرمیوں کے زمانے میں ہم نگلنے کو تھے، ایک منزل میں تو پیاس کے مارے ہماری گردنیں ٹوٹنے لگیں یہاں تک کہ لوگ اپنے اونٹوں کو ذبح کر کے اس کی اوجھڑی نچوڑ کر اس پانی کو پیتے اور پھر اسے اپنے کلیجے سے لگا لیتے اس وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالٰی نے آپ کی دعاؤں کو ہمیشہ ہی قبول فرمایا ہے۔ اب بھی دعا کیجئے کہ اللہ قبول فرمائے آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کی اس وقت آسمان پر ابر چھا گیا اور برسنے لگا اور خوب برسا جس کے پاس جتنے برتن تھے سب بھر لیے پھر بارش رک گئی اب جو ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لشکر کے احاطے سے باہر ایک قطرہ بھی کہیں نہیں برسا تھا۔ پس اس جہاد میں جنہوں نے روپے پیسے سے، سواری سے، خوراک سے، سامان رسد اور ہتھیار سے پانی وغیرہ سے غرض کسی طرح بھی مومنوں کی مدد کی تھی، ان کی فضیلت و برتری بیان ہو رہی ہے۔ یہی وہ وقت تھا کہ بعض کے دل پھر جانے کے قریب ہو گئے تھے۔ مشقت شدت اور بھوک پیاس نے دلوں کو ہلا دیا تھا، مسلمان جھنجھوڑ دیئے گئے تھے لیکن رب نے انہیں سنبھال لیا اور اپنی طرف جھکا لیا اور ثابت قدمی عطا فرما کر خود بھی ان پر مہربان ہوگیا، اللہ تعالٰی جیسی رافعت و رحمت اور کس کی ہے؟ وہ ان پر خوب ہی رحمت و کرم رکھتا ہے۔