مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ۚ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿120﴾
‏ [جالندھری]‏ اہل مدینہ کو اور جو ان کے آس پاس دیہاتی رہتے ہیں انکو شایاں نہ تھا کہ پیغمبر خدا سے پیچھے رہ جائیں اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو ان کی جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ یہ اس لئے کہ انہیں خدا کی راہ میں جو تکلیف پہنچتی ہے پیاس کی یا محنت کی یا بھوک کی یا وہ ایسی جگہ چلتے ہیں کہ کافروں کو غصہ آئے یا دُشمنوں سے کوئی چیز لیتے ہیں تو ہر بات پر ان کے لئے عمل صالح لکھا جاتا ہے کچھ شک نہیں کہ خدا نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
غزوہ تبوک میں شامل نہ ہو نے والوں کو تنبیہہ 
ان لوگوں کو غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اللہ تعالٰی ڈانٹ رہا ہے کہ مدینے والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو مجاہدین کے برابر ثواب والا نہیں سمجھنا چاہیے وہ اس اجر و ثواب سے محروم رہ گئے جو ان مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا۔ مجاہدین کو ان کی پیاس پر تکلیف پر بھوک پر ، ٹھہرنے اور چلنے پر، ظفر اور غلبے پر، غرض ہر ہر حرکت و سکون پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے۔ رب کی ذات اس سے پاک ہے کہ کسی نیکی کرنے والے کی محنت برباد کر دے۔