لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ﴿128﴾
‏ [جالندھری]‏ (لوگو) تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک پیغمبر آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف انکو گراں معلوم ہوتی ہے اور تمہاری بھلائی کے بہت خواہشمند ہیں۔ (اور) مومنوں پر نہایت شفقت کرنیوالے (اور) مہربان ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کا احسان عظیم ہیں
مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالٰی اپنا احسان عظیم یاد دلا رہا ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے خود انہیں میں سے ان کی ہی زبان میں اپنا رسول بھیجا۔ حضرت خلیل اللہ نے یہی دعا کی تھی۔ اسی کا بیان ( آیت لقد من اللّٰہ الخ ) میں ہے۔ یہی حضرت جعفر بن ابو طالب نے دربار نجاشی میں اور یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے دربار کسریٰ میں بیان فرمایا تھا کہ اللہ تعالٰی نے ہم میں ہمیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جس کا نسب ہمیں معلوم، جس میں سے کوئی برائی اللہ نے آپ کی ذات میں پیدا نہیں ہو نے دی۔ نسب نامہ بالکل کھرا تھا۔ خود آپ کا فرمان ہے کہ حضرت آدم سے لے کر مجھ تک بفضلہ کوئی برائی جاہلیت کی زنا کاری وغیرہ نہیں پہنچی، میں صحیح النسب ہوں۔ پھر اتنے نرم دل کہ امت کی تکلیفوں سے خود کانپ اٹھیں۔ آسان نرمی اور سادگی والا دین لے کر آئے ہیں۔ جو بہت آسان ہے۔ سہل ہے، کامل ہے اور اعلیٰ اور عمدہ ہے۔ وہ تمہاری ہدایت کے متمنی ہیں، وہ دنیاوی اخروی نفع تمہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ حضرت ابوذر فرماتے ہیں ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں چھوڑا کہ جو پرند اڑ کر نکلتا اس کا علم بھی آپ ہمیں کر دیتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ جنت سے قریب کرنے والی اور جہنم سے دور کرنے والی تمام چیزیں میں تم سے بیان کر چکا ہوں۔ آپ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالٰی نے تم پر جو کچھ حرام کیا ہے وہ عنقریب تم پر ظاہر کر دینے والا ہے اور اس کی باز پرس قطعاً ہو نے والی ہے۔ جس طرح پتنگے اور پروانے آگ پر گرتے ہوں اس طرح تم بھی گر رہے ہو اور میں تمہاری کولیاں بھر بھر کر تمہیں اس سے روک رہا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سوئے ہوئے ہیں جو دو فرشتے آتے ہیں ایک پاؤں کی طرف بیٹھتا ہے دوسرا سرہانے۔ پھر پاؤں والا سرہانے والے سے کہتا ہے ۔ اس کی اور اس کی امت کی مثال بیان کرو اس نے فرمایا یہ مثال سمجھو کہ ایک قوم سفر میں ہے، ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے جہان ان کا سامان خوراک ختم ہو جاتا ہے اب نہ تو آگے بڑھنے کی قوت، نہ پیچھے ہٹنے کی سکت ۔ ایسے وقت ایک بھلا آدمی اچھے لباس والا ان کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بیابان سے چھٹکارا دلا کر ایسی جگہ پہنچا سکتا ہوں جہاں تمہیں نتھرے ہوئے پانی کے لبالب حوض اور میووں کے لدے ہوئے درخت اور ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں ملیں بشرطیکہ تم میرے پیچھے ہو لو۔ انہوں نے اس کی بات کو مان لیا اور وہ انہیں ایسی ہی جگہ لے گیا وہاں انہوں نے کھایا پیا اور خوب پھلے پھولے۔ اب اس نے کہا۔ دیکھو میں نے تمہیں اس بھوک پیاس سے نجات دلائی اور یہاں امن چین میں لایا۔ اب ایک اور بات تم سے کہتا ہوں وہ بھی مانو۔ اس سے آگے اس سے بھی بہتر جگہ ہے وہاں کے حوض، وہاں کے میوے وہاں کے کھیت، اس سے بہت ہی اعلیٰ ہیں۔ ایک جماعت نے تو اسے سچا مانا اور ہاں کر لی۔ لیکن دوسرے گروہ نے اسی پر بس کر لیا اور اسکی تابعداری سے ہٹ گئے (مسند احمد) اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے۔ آؤ ایک واقعہ آپ کی کمال شفقت کا سنو! ایک اعرابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور خون بہا ادا کرنے کے لیے آپ سے امداد طلب کی۔ آپ نے اسے بہت کچھ دیا۔ پھر پوچھا کیوں صاحب میں نے تم سے سلوک کیا؟ اس نے کہاں کچھ بھی نہیں اس سے کیا ہوگا؟ صحابہ بہت بگڑے۔ قریب تھا کہ اسے لپٹ جائیں کہ اتنا لینے پر بھی یہ ناشکری کرتا ہے؟ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کا ایسا غلط اور گستاخانہ جواب دیتا ہے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا، گھر پر تشریف لے گئے۔ وہیں اسے بلوا لیا۔ سارا واقعہ کہہ سنایا پھر اسے اور بھی بہت کچھ دیا۔ پھر پوچھا کہو اب تو خوش ہو؟ اس نے کہاں ہاں اب دل سے راضی ہوں۔ اللہ تعالٰی آپ کو آپ کے اہل و عیال میں ہم سب کی طرف سے نیک بدلہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو! تم آئے ۔ تم نے مجھ سے مانگا، میں نے دیا پھر میں نے تم سے پوچھا کہ خوش ہو؟ تو تم نے الٹا پلٹا جواب دیا جس سے میرے صحابی تم سے نالاں ہیں۔ اب میں نے پھر دے دلا کر تمہیں راضی کر لیا ۔ اب تم ان کے سامنے بھی اسی طرح اپنی رضامندی ظاہر کرنا جیسے اب تم نے میرے سامنے کی ہے تاکہ ان کا رنج بھی دور ہو جائے۔ اس نے کہا بہت اچھا ۔ چنانچہ جب وہ صحابہ کے مجمع میں آپ کے پاس آیا آپ نے فرمایا دیکھو یہ شخص آیا تھا اس نے مجھ سے مانگا تھا، میں نے ایسے دیا تھا، پھر اس سے پوچھا تھا، تو اس نے ایسا جواب دیا تھا جو تمہیں ناگوار گزرا ۔ میں نے اسے پھر اپنے گھر بلوایا اور زیادہ دیا تو یہ خوش ہوگیا۔ کیوں بھئی اعرابی یہی بات ہے؟ اس نے کہا ہاں یا رسول اللہ ، اللہ تعالٰی آپ کو ہمارے اہل وعیال اور قبیلے کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت فرمائے۔ آپ نے مجھ سے بہت اچھا سلوک کیا۔ جزاک اللہ اس وقت آپ نے فرمایا میری اور اس اعرابی کی مثال سنو! جیسے وہ شخص جس کی اونٹنی بھاگ گئی لوگ اس کے پکڑنے کو دوڑے وہ ان سے بدک کر اور بھاگنے لگی۔ آخر اوٹنی والے نے کہا لوگو تم ایک طرف ہٹ جاؤ مجھے اور میری اوٹنی کو چھوڑ دو، اس کی خو خصلت سے میں واقف ہوں اور یہ میری ہی ہے۔ چنانچہ اس نے نرمی سے اسے بلانا شروع کیا۔ زمین سے گھانس پھونس توڑ کر اپنی مٹھی میں لے کر اسے دکھایا اور اپنی طرف بلایا، وہ آگئی۔ اس نے اس کی نکیل تھام لی اور پالان و کجاوہ ڈال دیا۔ سنو! اس کے پہلی دفعہ کے بگڑنے پر اگر میں بھی تمہارا ساتھ دیتا تو یہ جہنمی بن جاتا۔ ابراہیم بن حکم بن ابان کے ضعف کی وجہ سے اس کی سند ضعیف ہے۔ جیسے فرمان ہے کہ اے نبی مومنوں کے سامنے اپنا بازو پست رکھو۔ لوگ میری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ میں تمہارے اعمال سے بری ہوں۔ تو ہمیشہ اپنا بھروسہ رب عزیز و رحیم پر رکھ۔ 
منحریفین شریعت سے آپ بےنیاز ہو جائیں
یہاں بھی فرماتا ہے اگر یہ لوگ تیری شریعت سے منہ پھیر لیں تو تو کہہ دے کہ مجھے اللہ کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میرا توکل اسی کی پاک ذات پر ہے۔ جیسے فرمان ہے مشرق و مغرب کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے اس کے سوا کوئی بھی لائق عبادت نہیں تو اسی کو اپنا کار ساز ٹھہرا۔ وہ رب عرش عظیم ہے۔ یعنی ہرچیز کا مالک و خالق وہی ہے۔ عرش عظیم تمام مخلوقات کی چھت ہے۔ آسمان و زمین اور کل کائنات بقدرت رب عرش تلے ہے۔ اس اللہ کا علم ہرچیز پر شامل ہے اور ہرچیز کو اپنے احاطے میں کئے ہوئے ہے۔ اس کی قدرت ہرچیز پر حاوی ہے وہ ہر ایک کا کارساز ہے۔ حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں سب سے آخری آیت قرآن کی یہی ہے۔ مروی ہے کہ جب خلافت صدیقی میں قرآن کو جمع کیا تو کاتبوں کو حضرت ابی بن کعب لکھواتے تھے، جب اس سے پہلے کی( آیت لایفقھون ) تک پہنچے تو کہنے لگے کہ یہی آخری آیت ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو آیتیں اور پڑھوائیں ہیں۔ پھر آپ نے ان دونوں آیتوں کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ قرآن کی آخری آیتیں یہ ہیں۔ پس ختم بھی اسی پر ہوا جس پر شروع ہوا تھا یعنی لا الہ الا اللہ پر ۔ یہی وحی تمام نبیوں پر آتی رہی ہے کہ میرے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں۔ تم سب میری ہی عبادت کرو۔ یہ روایت بھی غریب ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت حارث بن خزیمہ رضی اللہ عنہ ان دونوں آیتوں کو لے کر آئے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہیں اور مجھے خوب اچھی طرح حفظ ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ میں نے بھی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ یہ گواہی سن کر آپ نے فرمایا اگر ان کے ساتھ تیسری آیت بھی ہوتی تو میں اسے علیحدہ سورت بنا لیتا تم انہیں قرآن کی کسی سورت کے ساتھ لکھ لو۔ چنانچہ سورۃ براۃ کے آخر میں یہ لکھ لی گئیں۔ پہلے یہ بات بھی بیان ہو چکی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ہی قرآن کے جمع کرنے کا مشورہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دیا تھا اور بحکم خلیفہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسے جمع کرنا شروع کیا۔ اس جماعت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آمد و رفت رکھتے تھے۔ صحیح حدیث میں ہے حضرت زید فرماتے ہیں۔ سورہ برات کا آخری حصہ میں نے خزیمہ بن ثابت یا ابو خزیمہ کے پاس پایا۔ یہ بھی ہم لکھ آئے ہیں کہ ایک جماعت صحابہ نے اس کا مذاکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کیا جیسے کہ حضرت خزیمہ بن ثابت نے کہا تھا۔ جب کہ ان کے سامنے اس کی ابتدائی بات کہی تھی۔ واللہ اعلم۔ حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص صبح شام (آیت حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ) کو سات سات مرتبہ پڑھ لے اللہ تعالٰی اسے اس کی تمام پریشانیوں سے نجات دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ خواہ صداقت سے پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو لیکن یہ زیادتی غریب ہے۔ ایک مرفوع روایت بھی اسی قسم کی ہے لیکن وہ بہت منکر ہے واللہ اعلم۔