وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿18﴾
‏ [جالندھری]‏ اور یہ (لوگ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو نہ اُنکا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔ کہہ دو کہ کیا تم خدا کو ایسی چیز بتاتے ہو جس کا وجود اُسے آسمانوں میں معلوم ہوتا ہے اور نہ زمین میں؟ وہ پاک ہے اور (اسکی شان) اُنکے شرک کرنے سے بہت بلند ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
شرک کے آغاز کی روداد
مشرکوں کا خیال تھا کہ جن کو ہم پوجتے ہیں یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے اس غلط عقیدے کی قرآن کریم تردید فرماتا ہے کہ وہ کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ان کی شفاعت تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔ تم تو اللہ کو بھی سکھانا چاہتے ہو گویا جو چیز زمین آسمان میں وہ نہیں جانتا تم اس کی خبر اسے دینا چاہتے ہو۔ یعنی یہ خیال غلط ہے۔ اللہ تعالٰی شرک و کفر سے پاک ہے وہ برتر و بری ہے۔ سنو پہلے سب کے سب لوگ اسلام پر تھے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت نوح علیہ السلام تک دس صدیاں وہ سب لوگ مسلمان تھے۔ پھر اختلاف رونما ہوا اور لوگوں نے تیری میری پرستش شروع کر دی۔ اللہ تعالٰی نے رسولوں کے سلسلوں کو جاری کیا تاکہ ثبوت و دلیل کے بعد جس کا جی چاہے زندہ رہے جس کا جی چاہے مر جائے۔ چونکہ اللہ کی طرف سے فیصلے کا دن مقرر ہے۔ حجت تمام کرنے سے پہلے عذاب نہیں ہوتا اس لیے موت موخر ہے۔ ورنہ ابھی ہی حساب چکا دیا جاتا۔ مومن کامیاب رہتے اور کافر ناکام۔