ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۚ كَذَلِكَ نَطْبَعُ عَلَى قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ ﴿74﴾
‏ [جالندھری]‏ پھر نوح کے بعد ہم نے اور پیغمبر اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجے۔ تو وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے۔ مگر وہ لوگ ایسے نہ تھے کہ جس چیز کی پہلے تکذیب کر چکے تھے اس پر ایمان لے آتے۔ اسی طرح ہم زیادتی کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
سلسلہ رسالت کا تذکرہ
حضرت نوح علیہ السلام کے بعد بھی رسولوں کا سلسلہ جاری رہا ہر رسول اپنی قوم کی طرف اللہ کا پیغام اور اپنی سچائی کی دلیلیں لے کر آتا رہا۔ لیکن عموما ان سب کے ساتھ بھی لوگوں کی وہی پرانی روش رہی۔ یعنی ان کی سچائی تسلیم کو نہ کیا جیسے( آیت ونقلب افئد تھم الخ ) میں ہے۔ پس ان کے حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے جس طرح ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ۔ اسی طرح ان جیسے تمام لوگوں کے دل مہر زدہ ہو جاتے ہیں اور عذاب دیکھ لینے سے پہلے انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا یعی نبیوں اور ان کے تابعداروں کو بچا لینا اور مخالفین کو ہلاک کرنا۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام کے بعد سے برابر یہی ہوتا رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں بھی انسان زمین پر آباد تھے۔ جب ان میں بت پرست شروع ہو گئی تو اللہ تعالٰی نے اپنے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کو ان میں بھیجا۔ یہی وجہ ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس سفارش کی درخواست لے کر جائیں گے تو کہیں گے کہ آپ پہلے رسول ہیں۔ جنہیں اللہ تعالٰی نے زمین والوں کی طرف مبعوث فرمایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان دس زمانے گزرے اور وہ سب اسلام میں ہی گزرے ہیں۔ اسی لیے فرمان اللہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بعد کے آنے والے ہم نے ان کی بد کرداریوں کے باعث ہلاک کر دیا۔ مقصود یہ کہ ان باتوں کو سن کر مشرکین عرب ہوشیار ہو جائیں کیونکہ وہ سب سے افضل و اعلیٰ نبی کو جھٹلا رہے ہیں۔ پس جب کہ ان کے کم مرتبہ نبیوں اور رسولوں کے جھٹلانے پر ایسے دہشت افزاء عذاب سابقہ لوگوں پر نازل ہو چکے ہیں تو اس سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھٹلانے پر ان سے بھی بدترین عذاب ان پر نازل ہوں گے۔