وَقَالَ مُوسَى يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ ﴿84﴾
‏ [جالندھری]‏ اور موسیٰ نے کہا کہ اے قوم اگر تم خدا پر ایمان لائے ہو تو اگر (دل سے) فرمانبردار ہو تو اسی پر بھروسا رکھو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
اللہ پر مکمل بھروسہ ایمان کی روح
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم بنی اسرائیل سے فرماتے ہیں کہ اگر تم مومن مسلمان ہو تو اللہ پر بھروسہ رکھو جو اس پر بھروسہ کرے وہ اسے کافی ہے عبادت و توکل دونوں ہم پلہ چیزیں ہیں۔ فرمان رب ہے(آیت فاعبدہ و توکل علیہ) اسی کی عبادت کر اور اسی پر بھروسہ رکھ۔ ایک اور آیت میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتا ہے کہ کہہ دے کہ رب رحمن پر ہم ایمان لائے اور اسی کی ذات پاک پر ہم نے توکل کیا۔ فرماتا ہے مشرق و مغرب کا رب جو عبادت کے لائق معبود ہے، جس کے سوا پرستش کے لائق اور کوئی نہیں ۔ تو اسی کو اپنا وکیل و کارساز بنا لے۔ تمام ایمانداروں کو جو سورت پانچوں نمازوں میں تلاوت کرنے کا حکم ہوا اس میں بھی ان کی زبانی اقرار کرایا گیا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ بنو اسرائیل نے اپنے نبی علیہ السلام کا یہ حکم سن کر اطاعت کی اور جواباً عرض کیا کہ "ہمارا بھروسہ اپنے رب پر ہی ہے ۔ پروردگار تو ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا کہ وہ ہم پر غالب رہ کر یہ سمجھنے لگیں کہ اگر یہ حق پر ہوتے اور ہم باطل پر ہوتے تو ہم ان پر غالب کیسے رہ سکتے" یہ مطلب بھی اس دعا کا بیان کیا گیا ہے کہ " اللہ ہم پر ان کے ہاتھوں عذاب مسلط نہ کرانا، نہ اپنے پاس سے کوئی عذاب ہم پر نازل فرما کہ یہ لوگ کہنے لگیں کہ اگر بنی اسرائیل حق پر ہوتے تو ہماری سزائیں کیوں بگھتتے یا اللہ کے عذاب ان پر کیوں اترتے؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ ہم پر غالب رہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ کہیں ہمارے سچے دین سے ہمیں ہٹانے کے لیے کوششیں کریں۔ اور اے پروردگار ان کافروں سے جنہوں نے حق سے انکار کر دیا ہے حق کو چھپایا لیا تو ہمیں نجات دے، ہم تجھ پر ایمان لائے ہیں اور ہمارا بھروسہ صرف تیری ذات پر ہے۔