وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّى جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿93﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے بنی اسرائیل کو رہنے کو عمدہ جگہ دی اور کھانے کو پاکیزہ چیزیں عطا کیں لیکن وہ باوجود علم حاصل ہونے کے اختلاف کرتے رہے۔ بیشک جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں تمہارا پروردگار قیامت کے دن ان میں ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
بنی اسرائیل پر اللہ کے انعامات 
اللہ نے جو نعمتیں بنی اسرائیل پر انعام فرمائیں ان کا ذکر ہو رہا ہے کہ شام اور ملک مصر میں بیت المقدس کے آپس پاس انہیں جگہ دی۔ تمام و کمال ملک مصر پر ان کی حکومت ہوگئ۔ فرعون کی ہلاکت کے بعد دولت موسویہ قائم ہوگئی۔ جیسے قرآن میں بیان ہے کہ ہم نے ان کمزور بنی اسرائیلیوں کے مشرق مغرب کے ملک کا مالک کر دیا۔ برکت والی زمین انکے قبضے میں دے دی اور ان پر اپنی سچی بات کی سچائی کھول دی ان کے صبر کا پھل انہیں مل گیا۔ فرعون، فرعونی اور ان کے کاریگریاں سب نیست و نابود ہوئیں اور آیتوں میں ہے کہ ہم نے فرعونیوں کو باغوں سے دشمنوں سے، خزانوں سے بہترین مقامات اور مکانات سے نکال باہر کیا۔ اور بنی اسرائیل کے قبضے میں یہ سب کچھ کر دیا۔ اور آیتوں میں ہے(آیت کم ترکوا من جنات الخ) باوجود اس کے خلیل الرحمن علیہ السلام کے شہر بیت المقدس کی محبت ان کے دل میں چٹکیاں لیتی رہی۔ وہاں عمالقہ کی قوم کا قبلہ تھا انہیوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے درخواست کی ، انہیں جہاد کا حکم ہوا یہ نامردی کر گئے جس کے بدلے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں سرگرداں پھرنا پڑا۔ وہیں حضرت ہارون علیہ السلام کا انتقال ہوا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا۔ ان کے بعد یہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے ساتھ نکلے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے ہاتھوں پر بیت المقدس کو فتح کیا۔ یہاں بخت نصر کے زمانے تک انہیں کا قبضہ رہا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ انہوں نے اسے لے لیا پھر یونانی بادشاہوں نے وہاں قبضہ کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک وہاں یونانیوں کا ہی قبضہ رہا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ضد میں ان ملعون یہودیوں نے شاہ یونان سے ساز باز کی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کے احکام انہیں باغی قرار دے کر نکلوا دیئے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ السلام کو تو اپنی طرف چڑھا لیا اور آپ کے کسی حواری پر آپ کی شباہت ڈال دی انہوں نے آپ کے دھوکے میں اسے قتل کر دیا اور سولی پر لٹکا دیا۔ یقینا جناب روح اللہ علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاتھوں قتل نہیں ہوئے۔ انہیں تو اللہ تعالٰی نے اپنی طرف بلند کر لیا۔ اللہ عزیز و حکیم ہے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد قسطنطنیہ نامی یونانی بادشاہ عیسائی بن گیا۔ وہ بڑا پاجی اور مکار تھا۔ دین عیسوی میں یہ بادشاہ صرف سیاسی منصوبوں کے پورا کرنے اور اپنی سلطنت کو مضبوط کرنے اور دین نصاری کو بدل ڈالنے کے لیے گھسا تھا۔ حیلہ اور مکر وفریب اور چال کے طور پر یہ مسیحی بنا تھا کہ مسیحیت کی جڑیں کھوکھلی کر دے۔ نصرانی علماء اور درویشوں کو جمع کرکے ان سے قوانین شریعت کے مجموعے کے نام سے نئی نئی تراشی ہوئی باتیں لکھوا کر ان بدعتوں کو نصرانیوں میں پھیلا دیا اور اصل کتاب و سنت سے انہیں ہٹا دیا۔ اس نے کلیسا، گرجے ، خانقاہیں، ہیکلیں وغیرہ بنائیں اور بیسیوں قسم کے مجاہدے اور نفس کشی کے طریقے اور طرح طرح کی عبادتیں ریاضتیں نکال کر لوگوں میں اس نئے دین کی خوب اشاعت کی اور حکومت کے زور اور زر کے لالچ سے اسے دور تک پہنچا دیا۔ جو بےچارے موحد، متبع انجیل اور سچے تابعدار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصلی دن پر قائم رہے انہیں ان ظالموں نے شہر بدر کر دیا۔ یہ لوگ جنگلوں میں رہنے سہنے لگے اور یہ نئے دین والے جن کے ہاتھوں میں تبدیلی اور مسخ والا دین رہ گیا تھا اُٹھ کھڑے ہوئے اور تمام جزیرہ روم پر چھا گئے۔ قسطنطنیہ کی بنیادیں اس نے رکھیں۔ بیت لحم اور بیت المقدس کے کلیسا اور حواریوں کے شہر سب اسی کے بسائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی شاندار، دیرپا اور مضبوط عمارتیں اس نے بنائیں۔ صلیب کی پرستش ، مشرق کا قبلہ، کنیسوں کی تصویریں، سور کا کھانا وغیرہ یہ سب چیزیں نصرانیت میں اسی نے داخل کیں۔ فروع اصول سب بدل کر دین مسیح کو الٹ پلٹ کر دیا۔ امانت کبیرہ اسی کی ایجاد ہے اور دراصل ذلیل ترین خیانت ہے۔ لمبے چوڑے فقہی مسائل کی کتابیں اسی نے لکھوائیں۔ اب بیت المقدس انہیں کے ہاتھوں میں تھا یہاں تک کہ صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فتح کیا۔ امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ مقدس شہر اس مقدس جماعت کے قبضے میں آیا۔ الغرض یہ پاک جگہ انہیں ملی تھی اور پاک روزی اللہ نے دے رکھی تھی جو شرعا بھی حلال اور طبعا بھی طیب۔ افسوس باوجود اللہ کی کتاب ہاتھ میں ہو نے کے انہوں نے خلاف بازی اور فرقہ بندی شروع کر دی۔ ایک دو نہیں بہتر(۷۲) فرقے قائم ہوگئے۔ اللہ اپنے رسول پر درود سلام نازل فرمائے آپ نے ان کی اس پھوٹ کا ذکر فرما کر فرمایا کہ میری امت میں بھی یہی بیماری پھیلے گی اور ان کے تہتر فرقے ہو جائیں گے جس میں سے ایک جنتی باقی سب دوزخی ہوں گے پوچھا گیا کہ جنتی کون ہیں؟ فرمایا وہ جو اس پر ہوں جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔ (مستدرک حاکم) اللہ فرماتا ہے ان کے اختلاف کا فیصلہ قیامت کے دن میں آپ ہی کروں گا