فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَى حِينٍ ﴿98﴾
‏ [جالندھری]‏ تو کوئی بستی ایسی نہ ہوئی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان اُسے نفع دیتا۔ ہاں یونس کی قوم' کہ جب ایمان لائی تو ہم نے دنیا کی زندگی میں ان سے ذلت کا عذاب دور کر دیا اور ایک مدت تک (فوائد دنیاوی سے) ان کو بہرہ مند رکھا۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
افسوس انسان نے اکثر حق کی مخالفت کی
کسی بستی کے تمام باشندے کسی نبی پر کبھی ایمان نہیں لائے۔ یا تو سب نے ہی کفر کیا یا اکثر نے۔ سورہ یٰسین میں فرمایا بندوں پر افسوس ہے ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ ایک آیت میں ہے ان سے پہلے رسول آئے، انہیں لوگوں نے جادوگر یا مجنون کا ہی خطاب دیا۔ تجھ سے پہلے جتنے رسول آئے سب کو ان کی قوم کے سرکشوں ساہو کاروں نے یہی کہا کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو جس لکیر پر پایا اسی کے فقیر بنے رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ پر انبیاء پیش کئے گئے کسی نبی کے ساتھ تو لوگوں کا ایک گروہ تھا۔ کسی کے ساتھ صرف ایک آدمی کوئی محض تنہا۔ پھر آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کی کثرت کا بیان کیا۔ پھر اپنی امت کا، اس سے بھی زیادہ ہونا۔ زمین کے مشرق مغرب کی سمت کو ڈھانپ لینا بیان فرمایا۔ الغرض تمام انبیاء میں سے کسی کی ساری امت نے انہیں نبی نہیں مانا۔ سوائے اہل نینویٰ کے جو حضرت یونس علیہ السلام کی امت کے لوگ تھے۔ یہ بھی اس وقت جب نبی علیہ السلام کی زبان سے عذاب کی خبر معلوم ہوگئی۔ پھر اس کے ابتدائی آثار بھی دیکھ لیے۔ ان کے نبی علیہ السلام انہیں چھوڑ کر چلے بھی گئے۔ اس وقت یہ سارے کے سارے اللہ کے سامنے جھک گئے اس سے فریاد شروع کی، اس کی جناب میں عاجزی اور گریہ و زاری کرنے لگے، اپنی مسکینی ظاہر کرنے لگے۔ اور دامن رحمت سے لپٹ گئے۔ سارے کے سارے میدان میں نکل کھڑے ہوئے اپنی بیویوں، بچوں اور جانوروں کو بھی ساتھ اٹھا کر لے گئے۔ اور آنسوؤں کی جھڑیاں لگا کر اللہ تعالٰی سے فریاد کرنے دعائیں مانگنے لگے کہ یا رب عذاب ہٹا لے۔ رحمت رب جوش میں آئی ، پروردگار نے ان سے عذاب ہٹا لیا اور دنیا کی رسوائی کے عذاب سے انہیں بچالیا۔ اور ان کی عمر تک کی انہیں مہلت دے دی اور اس دنیا کا فائدہ انہیں پہنچایا۔ یہاں جو فرمایا کہ دنیا کا عذاب ان سے ہٹا لیا۔ اس سے بعض نے کہا ہے کہ اُخروی عذاب دور نہیں۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں اس لے کے دوسری آیت میں ہے(آیت فامنو افمتعناھم الی حین ) وہ ایمان لائے اور ہم نے انہیں زندگی کا فائدہ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ ایمان لائے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایمان آخرت کے عذاب سے نجات دینے والا ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کس بستی اہل کفر کا عذاب دیکھ لینے کے بعد ایمان لانا ان کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوا۔ سوائے قوم یونس علیہ السلام کی قوم کے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے نبی ان میں سے نکل گئے اور انہوں نے خیال کر لیا کہ اب اللہ کا عذاب آیا چاہتا ہے، اس وقت توبہ استغفار کرنے لگے ٹاٹ پہن کر خشوع و خضوع سے میلے کچیلے میدان میں آکھڑے ہوئے بچوں کو ماؤں سے دور کردیا۔ جانوروں کے تھنوں سے ان کے بچوں کو الگ کر دیا۔ اب جو رونا دھونا اور فریاد شروع کی تو چالیس دن رات اسی طرح گزار دیئے۔ اللہ تعالٰی نے ان کے دل کی سچائی دیکھ لی۔ ان کی توبہ و ندامت قبول فرمائی اور ان سے عذاب دور کردیا، یہ لوگ موصل کے شہر نینویٰ کے رہنے والے تھے۔ فلو لا کی فھلا قرأت بھی ہے ان کے سروں پر عذاب رات کی سیاہی کے ٹکڑوں کی طرح گھوم رہا تھا ان کے علماء نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ جنگل میں نکل کھڑے ہو اور اللہ سے دعا کرو کہ وہ ہم سے اپنے عذاب کو دور کر دے اور یہ کہو یاحی حین لاحی یاحی محیی الموتی یاحی لا الہ الا انت قوم یونس کا پورہ قصہ سورہ الصافات کی تفسیر میں انشاء اللہ العزیز ہم بیان کریں گے۔