قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿104﴾
‏ [جالندھری]‏ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ دو کہ لوگو! اگر تم کو میرے دین میں کسی طرح کا شک ہو تو (سن رکھو کہ) جن لوگوں کی تم خدا کے سوا عبادت کرتے ہو میں ان کی عبادت نہیں کرتا۔ بلکہ میں خدا کی عبادت کرتا ہوں۔ جو تمہاری روحیں قبض کر لیتا ہے اور مجھ کو یہی حکم ہوا ہے کہ ایمان لانے والوں میں ہوں؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
دین حنیف کی وضاحت
یکسوئی والا سچا دین جو میں اپنے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہوں اس میں اے لوگوں اگر تمہیں کوئی شک شبہ ہے تو ہو، یہ تو ناممکن ہے کہ تمہاری طرح میں بھی مشرک ہو جاؤں اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرنے لگوں۔ میں تو صرف اسی اللہ کا بندہ ہوں اور اسی کی بندگی میں لگا رہوں گا جو تمہاری موت پر بھی ویسا ہی قادر ہے جیسا تمہاری پیدائش پر قادر ہے تم سب اسی کی طرف لوٹنے والے اور اسی کے سامنے جمع ہو نے والے ہو۔ اچھا اگر تمہارے یہ معبود کچھ طاقت و قدرت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ جو ان کے بس میں ہو مجھے سزا دیں۔ حق تو یہ ہے کہ نہ کوئی سزا ان کے قبضے میں نہ جزا۔ یہ محض بےبس ہیں، بےنفع و نقصان ہیں، بھلائی برائی سب میرے اللہ کے قبضے میں ہے۔ وہ واحد اور لاشریک ہے، مجھے اس کا حکم ہے کہ میں مومن رہوں۔ یہ بھی مجھے حکم مل چکا ہے کہ میں صرف اسی کی عبادت کرو۔ شرک سے یکسو اور بالکل علیحدہ رہوں اور مشرکوں میں ہرگز شمولیت نہ کروں۔ خیر و شر نفع ضرر، اللہ ہی کے ہاتھ میں ۔ کسی اور کو کسی امر میں کچھ بھی اختیار نہیں۔ پس کسی اور کی کسی طرح کی عبادت بھی لائق نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنی پوری عمر اللہ تعالٰی سے بھلائی طلب کرتے رہو۔ رب کی رحمتوں کے موقع کی تلاش میں رہو۔ ان کے موقعوں پر اللہ پاک جسے چاہے اپنی بھر پور رحمتیں عطا فرما دیتا ہے۔ اس سے پہلے عیبوں کی پردہ پوشی اپنے خوف ڈر کا امن طلب کیا کرو۔ پھر فرماتا ہے کہ جس گناہ سے جو شخص جب بھی توبہ کرے، اللہ اسے بخشنے والا اور اس پر مہربانی کرنے والا ہے۔