وَلَئِنْ أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً ثُمَّ نَزَعْنَاهَا مِنْهُ إِنَّهُ لَيَئُوسٌ كَفُورٌ ﴿9﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں پھر اس سے اسکو چھین لیں تو نا امید (اور) ناشکرا (ہوجاتا ہے ) ‏
تفسیر ابن كثیر
انسان کا نفسیاتی تجزیہ
سوائے کامل ایمان والوں کے عموماً لوگوں میں جو برائیاں ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ راحت کے بعد کی سختی پر مایوس اور محض نا اُمید ہو جاتے ہیں اللہ سے بد گمانی کر کے آئندہ کے لیے بھلائی کو بھول بیٹھتے ہیں گویا کہ نہ کبھی اس سے پہلے کوئی آرام اٹھایا تھا نہ اس کے بعد کسی راحت کی توقع ہے۔ یہی حال اس کے برخلاف بھی ہے اگر سختی کے بعد آسانی ہو گئی تو کہنے لگتے ہیں کہ بس اب برا وقت ٹل گیا۔ اپنی راحت اپنی تن آسانیوں پر مست و بےفکر ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کا استہزاء کرنے لگتے ہیں۔ اکڑ فوں میں پڑ جاتے ہیں اور آئندہ کی سختی کو بالکل فراموش کر دیتے ہیں۔ ہاں ایماندار اس بری خصلت سے محفوظ رہتے ہیں، وہ دکھ درد میں صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں راحت و آرام میں اللہ کی فرمان برداری کرتے ہیں۔ یہ صبر پر مغفرت اور نیکی پر ثواب پاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے کہ مومن کو کوئی سختی کوئی مصیبت کوئی دکھ، کوئی غم ایسا نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی اس کی خطائیں معاف نہ فرماتا ہو، یہاں تک کہ کانٹا لگنے پر بھی۔ بخاری و مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے مومن کے لیے اللہ تعالٰی کا ہر فیصلہ سراسر بہتر ہے۔ یہ راحت پاکر شکر کرتا ہے اور بھلائی سمیٹتا ہے۔ تکلیف اٹھاکر صبر کرتا ہے، نیکی پاتا ہے اور ایسا حال مومن کے سوا اور کسی کا نہیں ہو۔ اسی کا بیان سورہ والعصر میں ہے۔ یعنی عصر کے وقت کی قسم تمام انسان نقصان میں ہیں سوائے ان کے جو ایمان لائیں اور ساتھ ہی نیکیاں بھی کریں اور ایک دوسرے کو دین حق کی اور صبر کی ہدایت کرتے رہیں یہی بیان ( آیت ان الانسان خلق ھلوعا الخ) میں ہے۔