أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَى إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿17﴾
‏ [جالندھری]‏ بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ ایک (آسمانی) گواہ بھی اس کی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہو جو پیشوا اور رحمت ہے (تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے؟) یہی لوگ تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کاٹھکانہ آگ ہے۔ تو تم اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حق ہے ۔ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لانے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مومن کون ہیں؟ 
ان مومنوں کا وصف بیان ہو رہا ہے جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ جیسے حکم الٰہی ہے کہ(آیت فاقم وجھک للدین حنیفا الخ) اپنا منہ دین حنیف پر قائم کر دے اللہ کی فطرت جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی ہے بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے کہ جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث قدسی میں ہے میں نے اپنے تمام بندوں کو موحد پیدا کیا ہے لیکن پھر شیطان آکر انہیں ان کے دین سے بہکا دیتا ہے اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیتا ہے اور انہیں کہتا ہے کہ میرے ساتھ انہیں شریک کریں جن کی کوئی دلیل میں نے نہیں اتاری۔ مسند اور سنن میں ہے کہ ہر بچہ اسی ملت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کی زبان کھلے، الخ۔ پس مومن فطرت رب پر ہی باقی رہا ہے۔ پس ایک تو فطرت اس کی صحیح سالم ہوتی ہے پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد آتا ہے یعنی اللہ کی شریعت پییغبمر کے ذریعے پہنچتی ہے جو شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوئی ۔ پس شاہد سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ کی رسالت اولاً حضرت جبرائیل علیہ السلام لائے اور آپ کے واسطے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ایک قول میں کہا گیا ہے کہ وہ علی رضی اللہ عنہ ہیں لیکن وہ قول ضعیف ہے۔ اس کا کوئی قائل ثابت ہی نہیں۔ حق بات پہلی ہی ہے۔ پس مومن کی فطرت اللہ کی وحی سے مل جاتی ہے۔ اجمالی طور پر اسے پہلے سے ہی یقین ہوتا ہے، پھر شریعت کی تفصیلات کو مان لیتا ہے۔ اس کی فطرت ایک ایک مسئلے کی تصدیق کرتی جاتی ہے۔ پس فطرت سلیم، اس کے ساتھ قرآن کی تعلیم، جسے حضرت جبرائیل نے اللہ کے نبی کو پہنچایا اور آپ نے اپنی امت کو پھر اس سے پہلے کی ایک اور تائید بھی موجود ہے، وہ کتاب موسی یعنی تورات جیسے اللہ نے اس زمانے کی امت کے لیے پیشوائی کے قابل بنا کر بھیجی تھی اور جو اللہ کی طرف سے رحمت تھی اس پر جن کا پورا ایمان ہے وہ لامحالہ اس نبی اور اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اس کتاب نے اس کتاب پر ایمان لانے کی رہنمائی کی ہے۔ پس یہ لوگ اس کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ پھر پورے قرآن کو یا اس کے کسی حصے کو نہ ماننے والوں کی سزا کا بیان فرمایا کہ دنیا والوں میں سے جو گروہ جو فرقہ اسے نہ مانے خواہ یہودی ہو، خواہ نصرانی کہیں کا ہو ، کوئی ہو، کسی رنگت اور شکل وصورت کا ہو، قرآن پہنچا اور نہ ماناہ وہ جہنمی ہے۔ جیسے رب العالمین نے اپنے نبی کی زبانی اسی قرآن کریم میں فرمایا ہے۔(آیت لا نذر کم بہ ومن بلغ ) کہ میں اس سے تمہیں بھی آگاہ کر رہا ہوں اور انہیں بھی جنہیں یہ پہنچ جائے اور آیت میں ہے(آیت قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا) لوگوں میں اعلان کردو کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس امت میں سے جو بھی مجھے سن لے اور پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں میں جو صحیح حدیث سنتا ہوں اس کی تصدیق کتاب اللہ میں ضرور پاتا ہوں۔ مندرجہ بالا حدیث سن کر میں اس تلاش میں لگا کہ اس کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے ہوتی ہے تو مجھے یہ آیت ملی پس تمام دین والے اس سے مراد ہیں۔ پھر جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہو نے میں تجھے کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے جیسے ارشاد ہے کہ اس کتاب کے رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہو نے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور جگہ ہے(آیت ذالک الکتاب لا ریب فیہ) اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ پھر ارشاد ہے کہ اکثر لوگ ایمان سے کورے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے(آیت وما اکثر الناس ولو حرمت بمومنین) یعنی گو تیری چاہت ہو لیکن یقین کر لے کہ اکثر لوگ مومن نہیں ہونگے۔ اور آیت میں ہے(آیت وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ) اگر تو دنیا والوں کی اکثریت کی پیروی کرے گا تو وہ تو تجھے راہ حق سے بھٹکا دیں گے اور آیت میں ہے(آیت ولقد صدق علیھم ابلیس ظنہ فاتبعوہ الا فریقا من المومنین) یعنی ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر سی جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔