وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ ﴿29﴾
‏ [جالندھری]‏ اور اے قوم ! میں اس (نصیحت) کے بدلے تم سے مال وزر کا خواہاں نہیں ہوں۔ میرا صلہ تو خدا کے ذمے ہے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں میں انکو نکالنے والا بھی نہیں ہوں۔ وہ تو اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ نادانی کر رہے ہو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
دعوت حق سب کے لیے یکساں ہے 
آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ نصیحت تمہیں کر رہا ہوں جنتی خیر خواہی تمہاری کرتا ہوں اسکی کوئی اجرت تو تم سے نہیں مانگتا، میری اجرت تو اللہ کے ذمے ہے۔ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ ان غریب مسکین ایمان والوں کو میں دھکے دیدوں مجھ سے تو یہ کبھی نہیں ہو نے کا۔ یہی طلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کی گئی تھی جس کے جواب میں یہ آیت اتری(آیت لا تطرد الذین یدعون ربھم بالغدا وۃ والعشی) یعنی صبح شام اپنے رب کے پکارنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ نکال۔ اور آیت میں ہے (آیت وکذالک فتنا بعضھم ببعض الخ ،) اسی طرح ہم نے ایک کو دورے سے آزما لیا اور وہ کہنے لگے کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کا فضل نازل ہوا؟ کیا اللہ تعالٰی شکر گزاروں کو نہیں جانتا؟