فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَيْكُمْ ۚ وَيَسْتَخْلِفُ رَبِّي قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّونَهُ شَيْئًا ۚ إِنَّ رَبِّي عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيظٌ ﴿57﴾
‏ [جالندھری]‏ اگر تم رودگرانی کرو گے تو جو پیغام میرے ہاتھ تمہاری طرف بھیجا گیا ہے وہ میں نے تمہیں پہنچا دیا ہے اور میرا پروردگار تمہاری جگہ اور لوگوں کو لابسائے گا۔ اور تم خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکتے۔ میرا پروردگار تو ہرچیز پرنگہبان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہود علیہ السلام کا قوم کو جواب 
حضرت ہود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اپنا کام تو میں پورا کر چکا، اللہ کی رسالت تمہیں پہنچا چکا، اب اگر تم منہ موڑ لو اور نہ مانو تو تمہارا وبال تم پر ہی ہے نہ کہ مجھ پر ۔ اللہ کو قدرت ہے کہ وہ تمہاری جگہ انہیں دے جو اس کی توحید کو مانیں اور صرف اسی کی عبادت کریں۔ اسے تمہاری کوئی پرواہ نہیں ، تمہارا کفر اسے کوئی نقصان نہیں دینے کا بلکہ اس کا وبال تم پر ہی ہے۔ میرا رب بندوں پر شاہد ہے۔ ان کے اقوال افعال اس کی نگاہ میں ہیں۔ آخر ان پر اللہ تعالٰی کا عذاب آگیا۔ خیر و برکت سے خالی، عذاب و سزا سے بھری ہوئی آندھیاں چلنے لگیں۔ اس وقت حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کی جماعت مسلمین اللہ کے فضل و کرم اور اس کے لطف و رحم سے نجات پا گئے۔ سزاؤں سے بچ گئے، سخت عذاب ان پر سے ہٹا لئے گئے۔ یہ تھے عادی جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، اللہ کے پیغمبروں کی مان کر نہ دی۔ یہ یاد رہے کہ ایک نبی کا نافرمان کل نبیوں کا نافرمان ہے۔ یہ انہیں کی مانتے رہے جو ان میں ضدی اور سرکش تھے۔ اللہ کی اور اس کے مومن بندوں کی لعنت ان پر برس پڑی۔ اس دنیا میں بھی ان کا ذکر لعنت سے ہو نے لگا اور قیامت کے دن بھی میدان محشر میں سب کے سامنے ان پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ اور پکار دیا جائے گا کہ عادی اللہ کے منکر ہیں۔ حضرت سدی کا قول ہے کہ ان کے بعد جتنے نبی آئے سب ان پر لعنت ہی کرتے آئے ان کی زبانی اللہ کی لعنتیں بھی ان پر ہوتی رہیں۔