قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَنْ نَعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ ﴿62﴾
‏ [جالندھری]‏ انہوں نے کہا صالح اس سے پہلے ہم تم سے (کئی طرح کی ) امیدیں رکھتے تھے (اب وہ منقطع ہوگئیں) کیا تم ہم کو ان چیزوں کے پوچنے سے منع کرتے ہو جن کو ہمارے بزرگ پوجتے آئے ہیں۔ اور جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو اس میں ہمیں قومی شبہہ ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
باپ دادا کے معبود ہی ہم کو پیارے ہیں 
حضرت صالح علیہ السلام اور آپ کی قوم کے درمیان جو بات چیت ہوئی اس کا بیان ہو رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تو یہ بات زبان سے نکال۔ اس سے پہلے تو ہماری بہت کچھ اُمیدیں تجھ سے وابستہ تھیں، لیکن تو نے ان سے سب پر پانی پھر دیا۔ ہمیں پرانی روش اور باپ دادا کے طریقے اور پوجا پاٹ سے ہٹانے لگا۔ ہمیں تو تیری اس نئی رہبری میں بہت بڑا شک شبہ ہے۔ آپ نے فرمایا سنو میں اعلیٰ دلیل پر ہوں۔ میرے پاس رب کی نشانی ہے، مجھے اپنی سچائی پر دلی اطمینان ہے میرے پاس اللہ کی رسالت کی رحمت ہے۔ اب اگر میں تمہیں اس کی دعوت نہ دوں اور اللہ کی نافرمانی کرو اور اس کی عبادت کی طرف تمہیں نہ بلاؤں تو کون ہے جو میری مدد کر سکے اور اللہ کے عذاب سے مجھے بچا سکے؟ میرا ایمان ہے کہ مخلوق میرے کام نہیں آسکتی تم میرے لیے محض بےسود ہو۔ سوائے میرے نقصان کے تم مجھے اور کیا دے سکتے ہو۔