قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ ﴿87﴾
‏ [جالندھری]‏ انہوں نے کہا شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں ہم انکو ترک کردیں۔ یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار 
حضرت اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں۔ حضرت حسن فرماتے ہیں واللہ واقعہ یہی ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں۔ ثوری فرماتے ہیں کہ ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوۃ کیوں دیں؟ نبی اللہ کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا۔