وَيَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ سَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَمَنْ هُوَ كَاذِبٌ ۖ وَارْتَقِبُوا إِنِّي مَعَكُمْ رَقِيبٌ ﴿93﴾
‏ [جالندھری]‏ اور برادران ملت ! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ میں (اپنی جگہ) کام کئے جاتا ہوں۔ تم کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے۔ اور جھوٹا کون ہے؟ اور تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
مدین والوں پر عذاب الٰہی
جب اللہ کے نبی علیہ السلام اپنی قوم کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو تھک کر فرمایا اچھا تم اپنے طریقے پر چلے جاؤ میں اپنے طریقے پر قائم ہوں۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ رسوا کرنے والے عذاب کن پر نازل ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک جھوٹا کون ہے؟ تم منظر رہو میں بھی انتظار میں ہوں۔ آخرش ان پر بھی عذاب الٰہی اترا اس وقت نبی اللہ اور مومن بچا دیئے گئے ان پر رحمت رب ہوئی اور ظالموں کو تہس نہس کر دیا گیا۔ وہ جل بھجے ۔ بےحس و حرکت رہ گئے۔ ایسے کہ گویا کبھی اپنے گھروں میں آباد ہی نہ تھے۔ اور جیسے کہ ان سے پہلے کے ثمودی تھے اللہ کی لعنت کا باعث بنے ویسے ہی یہ بھی ہوگئے ۔ ثمودی ان کے پڑوسی تھے اور گناہ اور بدامنی میں انہیں جیسے تھے اور یہ دونوں قومیں عرب ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔