إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ۚ ذَلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَهُ النَّاسُ وَذَلِكَ يَوْمٌ مَشْهُودٌ ﴿103﴾
‏ [جالندھری]‏ ان (قصوں) میں اس شخص کے لئے جو عذاب آخرت سے ڈرے عبرت ہے۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں سب لوگ اکھٹے کئے جائیں گے اور یہی وہ دن ہوگا جس میں سب (خدا کے روبرو) حاضر کئے جائیں گے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
ہلاکت اور نجات، ٹھوس دلائل 
کافروں کی اس ہلاکت اور مومنوں کی نجات میں صاف دلیل ہے ہمارے ان وعدوں کی سچائی پر جو ہم نے قیامت کے بارے میں کئے ہیں جس دن تمام اول و آخر کے لوگ جمع کئے جائیں گے۔ ایک بھی باقی نہ چھوٹے گا اور وہ بڑا بھاری دن ہوگا تمام فرشتے ، تمام رسول، تمام مخلوق حاضر ہوگی۔ حاکم حقیقی عادل کافی انصاف کرے گا۔ قیامت کے قائم ہو نے میں دیر کی وجہ یہ ہے کہ رب یہ بات پہلے ہی مقرر کر چکا ہے کہ اتنی مدت تک دنیا بنی آدم سے آباد رہے گی ۔ اتنی مدت خاموشی پر گزرے گی پھر فلاں وقت قیامت قائم ہوگی۔ جس دن قیامت آجائے گی ۔ کوئی نہ ہوگا جو اللہ کی اجازت کے بغیر لب بھی کھول سکے ۔ مگر رحمن جسے اجازت دے اور وہ بات بھی ٹھیک بولے۔ تمام آوازیں رب رحمن کے سامنے پست ہوں گی۔ بخاری و مسلم کی حدیث شفاعت میں ہے اس دن صرف رسول ہی بولیں گے اور ان کا کلام بھی صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ سلامت رکھ، یا اللہ سلامتی دے۔ مجمع محشر میں بہت سے تو برے ہوں گے اور بہت سے نیک۔ اس آیت کے اترنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ پھر یا رسول اللہ ہمارے اعمال اس بنا پر ہیں جس سے پہلے ہی فراغت کر لی گئی ہے یا کسی نئی بنا پر؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اس حساب پر جو پہلے سے ختم ہو چکا ہے جو قلم چل چکا ہے لیکن ہر ایک کے لیے وہی آسان ہوگا۔ جس کے لیے اس کی پیدائش کی گئی ہے۔