وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿36﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل زنداں ہوئے۔ ایک نے دن میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا کیا ہوں کہ شراب (کے لئے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے ہیں (تو) ہمیں انکی تعبیر بتا دیجئے کہ ہم تمہیں نیکو کار دیکھتے ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
جیل خانہ میں بادشاہ کے باورچی اور ساقی سے ملاقات 
اتفاق سے جس روز حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانہ جانا پڑا اسی دن باشاہ کا ساقی اور نان بائی بھی کسی جرم میں جیل خانے بھیج دیئے گئے۔ ساقی کا نام بندار تھا اور باورچی کا نام بحلث تھا۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے کھانے پینے میں بادشاہ کو زہر دینے کی سازش کی تھی۔ قید خانے میں بھی نبی اللہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نیکیوں کی کافی شہرت تھی۔ سچائی، امانت داری، سخاوت، خوش خلقی، کثرت عبادت، اللہ ترسی، علم و عمل، تعبیر خواب، احسان و سلوک وغیرہ میں آپ مشہور ہوگئے تھے۔ جیل خانے کے قیدیوں کی بھلائی ان کی خیر خواہی ان سے مروت و سلوک ان کے ساتھ بھلائی اور احسان ان کی دلجوئی اور دلداری ان کے بیماروں کی تیمارداری خدمت اور دوا دارو بھی آپ کا تشخص تھا۔ یہ دونوں ہی ملازم حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت ہی محبت کرنے لگے۔ ایک دن کہنے لگے کہ حضرت ہمیں آپ سے بہت ہی محبت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے۔ بات یہ ہے کہ مجھے تو جس نے چاہا کوئی نہ کوئی آفت ہی مجھ پر لایا۔ پھوپھی کی محبت، باپ کا پیار، عزیز کی بیوی کی چاہت، سب مجھے یاد ہے۔ اور اس کا نتیجہ میری ہی نہیں بلکہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب دونوں نے ایک مرتبہ خواب دیکھا ساقی نے دیکھا کہ وہ انگور کا شیرہ نچوڑ رہا ہے۔ ابن مسعود کی قرأت میں خمرا کے بدلے لفظ عنبا ہے، اہل عمان انگور کو خمر کہتے ہیں۔ اس نے دیکھا تھا کہ گویا اس نے انگور کی بیل بوئی ہے اس میں خوشے لگے ہیں، اس نے توڑے ہیں۔ پھر ان کا شیرہ نچوڑ رہا ہے کہ بادشاہ کو پلائے۔ یہ خواب بیان کر کے آرزو کی کہ آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلائیے۔ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہیں تین دن کے بعد جیل خانے سے آزاد کر دیا جائے گا اور تم اپنے کام پر یعنی بادشاہ کی ساقی گری میں لگ جاؤ گے۔ دوسرے نے کہا جناب میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں سر پر روٹی اٹھائے ہوئے ہوں اور پرندے آ آکر اس میں سے کھا رہے ہیں۔ اکثر مفسرین کے نزدیک مشہور بات تو یہی ہے کہ واقعہ ان دونوں نے یہی خواب دیکھے تھے اور ان کی صحیح تعبیر حضرت یوسف علیہ السلام سے دریافت کی تھی۔ لیکن حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ درحقیقت انہوں نے کوئی خواب تو نہیں دیکھا تھا۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی آزمائش کے لیے جھوٹے خواب بیان کر کے تعبیر طلب کی تھی ۔