يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴿39﴾
‏ [جالندھری]‏ میرے جیل خانے کے رفیقو! بھلا کئی جدا جدا آقا اچھے یا (ایک) خدائے یکتا وغالب؟ ‏
تفسیر ابن كثیر
شاہی باورچی اور ساقی کے خواب کی تعبیر اور پیغام توحید
یوسف علیہ السلام سے وہ اپنے خواب کی تعبیر پوچھنے آئے ہیں۔ آپ نے انہیں تعبیر خواب بتا دینے کا اقرار کر لیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے انہیں توحید کا وعظ سنا رہے ہیں اور شرک سے اور مخلوق پرستی سے نفرت دلا رہے ہیں۔ فرما رہے ہیں کہ وہ اللہ واحد جس نے ہرچیز پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے سامنے تمام مخلوق پست و عاجز لاچار بےبس ہے۔ جس کا ثانی شریک اور ساجھی کوئی نہیں۔ جس کی عظمت و سلطنت چپے چپے اور ذرے ذرے پر ہے وہی ایک بہتر؟ یا تمہارے یہ خیالی کمزور اور ناکارے بہت سے معبود بہتر؟ پھر فرمایا کہ تم جن جن کی پوجا پاٹ کر رہے ہو بےسند ہیں۔ یہ نام اور ان کے لیے عبادت یہ تمہاری اپنی گھڑت ہے ۔ زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ تمہارے باپ دادے بھی اس مرض کے مریض تھے۔ لیکن کوئی دلیل اس کی تم لا نہیں سکتے بلکہ اس کی کوئی عقلی دلیل دنیا میں اللہ نے بنائی نہیں۔ حکم تصرف قبضہ ، قدرت، کل کی کل اللہ تعالٰی ہی کی ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو اپنی عبادت کا اور اپنے سوا کسی اور کی عبادت کرنے سے باز آنے کا قطعی اور حتمی حکم دے رکھا ہے۔ دین مستقیم یہی ہے کہ اللہ کی توحید ہو اس کے لۓ ہی عمل و عبادت ہو۔ اسی اللہ کا حکم اس پر بیشمار دلیلیں موجود۔ لیکن اکثر لوگ ان باتوں سے ناواقف ہیں۔ نادان ہیں توحید و شرک کا فرق نہیں جانتے۔ اس لیے اکثر شک کے دلدل میں دھنسے رہتے ہیں۔ باوجود نبیوں کی چاہت کے انہیں یہ منصیب نہیں ہوتا۔ خواب کی تعبیر سے پہلے اس بحث کے چھیڑنے کی ایک خاص مصلحت یہ بھی کہ ان میں سے ایک کے لیے تعبیر نہایت بری تھی تو آپ نے چاہا کہ یہ اسے نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔ لیکن اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ خصوصا ایسے موقعہ پر جب کہ اللہ کے پیغمبر ان سے تعبیر دینے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ یہاں تو صرف یہ بات ہے کہ انہوں نے آپ کی بزرگی و عزت دیکھ کر آپ سے ایک بات پوچھی۔ آپ نے اس کے جواب سے پہلے انہیں اس سے زیادہ بہتر کی طرف توجہ دلائی۔ اور دین اسلام ان کے سامنے مع دلائل پیش فرمایا۔ کیونکہ آپ نے دیکھا تھا کہ ان میں بھلائی کے قبول کرنے کا مادہ ہے۔ بات کو سوچیں گے۔ جب آپ اپنا فرض ادا کر چکے۔ احکام اللہ کی تبلیغ کر چکے۔ تو اب بغیر اس کے کہ وہ دوبارہ پوچھیں آپ نے ان کا جواب شروع کیا۔