وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴿53﴾
‏ [جالندھری]‏ اور میں اپنے تئیں پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امّارہ (انسان کو) برائی ہی سکھاتا رہتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے۔ بیشک میرا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
عزیز مصر کی بیوی کہہ رہی ہے کہ میں اپنی پاکیزگی بیان نہیں کر رہی اپنے آپ کو نہیں سراہتی ۔ نفس انسانی تمناؤں اور بری باتوں کا مخزن ہے ۔ اس میں ایسے جذبات اور شوق اچھلتے رہتے ہیں ۔ وہ برائیوں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ اسی کے پھندے میں پھنس کر میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا ۔ مگر جسے اللہ چاہے نفس کی برائی سے محفوظ رکھ لیتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔ بخشش کرنا معافی دینا اس کی ابدی اور لازمی صفت ہے ۔ یہ قول عزیز مصر کی عورت کا ہی ہے ۔ یہی بات مشہور ہے اور زیادہ لائق ہے اور واقعہ کے بیان سے بھی زیادہ مناسب ہے ۔ اور کلام کے معنی کے ساتھ بھی زیادہ موافق ہے ۔ اما ماوردی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اسے وارد کیا ہے ۔ اور علامہ ابوالعباس حضرت امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تو اسے ایک مستقل تصنیف میں بیان فرمایا ہے اور اس کی پوری تائید کی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیعلم سے اس دوسری آیت کے ختم تک انہی کا فرمان ہے ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے تو صرف یہی ایک قول نقل کیا ہے ۔ چنانچہ ابن جریر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بادشاہ نے عورتوں کو جمع کر کے جب ان سے پوچھا کہ کیا تم نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بہلایا پھسلایا تھا ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ حاشاللہ ہم نے اس میں کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ اس وقت عزیز مصر کی بیوی نے اقرار کیا کہ واقعی حق تو یہی ہے ۔ تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا یہ سب اس لئے تھا کہ میری امانت درای کا یقین ہو جائے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ سے فرمایا وہ دن بھی یاد ہے ؟ کہ آپ نے کچھ ارادہ کر لیا تھا ؟ تب آپ نے فرمایا میں اپنے نفس کی برات تو نہیں کر رہا ؟ بیشک نفس برائیوں کا حکم دیتا ہے ۔ الغرض ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ کلام حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے ۔ لیکن پہلا قول یعنی اس کلام کا عزیز کی موت کا کلام ہونا ہی زیادہ قوی اور زیادہ ظاہر ہے ۔ اس لئے کہ اوپر سے انہی کا کلام چلا آ رہا ہے جو بادشاہ کے سامنے سب کی موجودگی میں ہو رہا تھا ۔ اس وقت تو حضرت یوسف علی السلام وہاں موجود ہی نہ تھے ۔ اس تمام قصے کے کھل جانے کے بعد بادشاہ نے آپ کو بلوایا۔