وَكَذَلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴿56﴾
‏ [جالندھری]‏ اس طرح ہم نے یوسف علیہ السلام کو ملک (مصر) میں جگہ دی اور وہ اس ملک میں جہاں چاہتے تھے رہتے تھے۔ ہم اپنی رحمت جس پر چاہتے ہیں کرتے ہیں اور نیکو کاروں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
زمین مصر میں یوں حضرت یوسف علیہ السلام کی ترقی ہوئی ۔ اب ان کے اختیار میں تھا کہ جس طرح چاہیں تصرف کریں ۔ جہاں چاہیں مکانات تعمیر کریں ۔ یا اس تنہائی اور قید کو دیکھئے یا اب اس اختیار اور آزادی کو دیکھئے ۔ سچ ہے رب جسے چاہے اپنی رحمت کا جتنا حصہ چاہے دے۔ صابروں کا پھل لا کر ہی رہتا ہے ۔ بھائیوں کا دکھ سہا، اللہ کی نافرمانی سے بچنے کے لئے عزیز مصر کی عورت سے بگاڑ لی اور قید خانے کی مصیبتیں برداشت کیں ۔ پس رحمت الہی کا ہاتھ بڑھا اور صبر کا اجر ملا ۔ نیک کاروں کی نیکیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں ۔ پھر ایسے باایمان تقوی والے آخرت میں بڑے درجے اور اعلی ثواب پاتے ہیں ۔ یہاں یہ ملا ، وہاں کے ملنے کی تو کچھ نہ پوچھئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں بھی قرآن میں آیا ہے کہ یہ دنیا کی دولت وسلطنت ہم نے تجھے اپنے احسان سے دی ہے اور قیامت کے دن بھی تیرے لئے ہمارے ہاں اچھی مہمانی ہے ۔ الغرض شاہ مصر ریان بن ولید نے سلطنت مصر کی وزارت آپ کو دی ، پہلے اسی عہدے پر اس عورت کا خاوند تھا۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا ، اسی نے آپ کو خرید لیا تھا۔ آخر شاہ مصر آپ کے ہاتھ پر ایمان لایا ۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ آپ کے خریدنے والے کا نام اطغر تھا ۔ یہ انہی دنوں میں انتقال کر گیا ۔ اس کے بعد باشاہ نے اس کی زوجہ راعیل سے حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح کر دیا ۔ جب آپ ان سے ملے تو فرمایا کہو کیا یہ تمہارے اس ارادے سے بہتر نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجیئے آپ کو معلوم ہے کہ میں حسن وخوبصورتی والی دھن دولت والی عورت تھی میرے خاوند مردمی سے محروم تھے وہ مجھ سے مل ہی نہیں سکتے تھے ۔ ادھر آپ کو قدرت نے جس فیاضی سے دولت حسن کے ساتھ مالا مال کیا ہے وہ بھی ظاہر ہے ۔ پس مجھے اب ملامت نہ کیجئے ۔ کہتے ہیں کہ واقعی حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں کنواری پایا ۔ پھر ان کے بطن سے آپ کو دو لڑکے ہوئے افراثیم اور میضا ۔ افراثیم کے ہاں نون پیدا ہوئے جو حضرت یوشع کے والد ہیں اور رحمت نامی صاحبزادی ہوئی جو حضرت ایوب علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جو حضرت یوسف علیہ السلام کی بیوی ہیں ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عزیز کی بیوی راستے میں کھڑی تھیں جب حضرت یوسف علیہ السلام کی سواری نکلی تو بےساختہ ان کے منہ سے نکل گیا کہ الحمد اللہ اللہ کی شان کے قربان جس نے اپنی فرمانبرداری کی وجہ سے غلاموں کو بادشاہی پر پہنچایا اور اپنی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہوں کو غلامی پر لا اتارا۔