قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿78﴾
‏ [جالندھری]‏ وہ کہنے لگے کہ اے عزیز اس کے والد بہت بوڑھے ہیں۔ اور اس سے بہت محبت رکھتے ہیں تو اس کو چھوڑ دیجئے اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ احسان کرنے والے ہیں، ‏
تفسیر ابن كثیر
جب بنیامین کے پاس سے شاہی مال برآمد ہوا اور ان کے اپنے اقرار کے مطابق وہ شاہی قیدی ٹھر چکے تو اب انہیں رنج ہونے لگا ۔ عزیز مصر کو پرچانے لگے اور اسے رحم دلانے کے لئے کہا کہ ان کے والد ان کے بڑے ہی دلدادہ ہیں ۔ ضعیف اور بوڑھے شخض ہیں ۔ ان کا ایک سگا بھائی پہلے ہی گم ہو چکا ہے ۔ جس کے صدمے سے وہ پہلے ہی سے چور ہیں اب جو یہ سنیں گے تو ڈر ہے کہ زندہ نہ بچ سکیں ۔ آپ ہم میں سے کسی کو ان کے قائم مقام اپنے پاس رکھ لیں اور اسے چھوڑ دیں آپ بڑے محسن ہیں ، اتنی عرض ہماری قبول فرما لیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جواب دیا کہ بھلا یہ سنگدلی اور ظلم کیسے ہو سکتا ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی ۔ چور کو روکا جائے گا نہ کہ شاہ کو نا کردہ گناہ کو سزا دینا اور گنہگار کو چھور دینا یہ تو صریح نا انصافی اور بدسلوکی ہے ۔