يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿87﴾
‏ [جالندھری]‏ بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو۔ اور خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو کہ خدا کی رحمت سے بے ایمان لوگ نا امید ہوا کرتے ہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور حضرت یوسف اور بنیامین کی تلاش کرو ۔ عربی میں تحسس کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لئے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے تجسس کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہو نا چاہیے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے ۔ تم تلاش بند نہ کرو ، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو ۔ چنانچہ یہ لوگ چلے ، پھر مصر پہنچے ، حضرت یوسف کے دربار میں حاضر ہوئے ، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے ، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ، جس سے غلہ خریدتے اب ردی ، واہی ، ناقص ، بےکار ، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں ۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئے ، ہماری خورجیاں پر کر دیجئے ، ابن مسعود کی قرأت میں (فاوف لنا الکیل) کے بدلے فاوقرر کا بنا ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئے ۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئے ، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئے ۔ حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے ؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر ۔ فرمایا ہاں اس لئے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو۔