رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ﴿101﴾
‏ [جالندھری]‏ (جب یہ سب باتیں ہو لیں تو یوسف نے خدا سے دعا کی کہ) اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ دیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے تو ہی دنیا اور آخرت میں میرا کارساز ہے تو مجھے (دنیا سے) اپنی اطاعت (کی حالت) میں اٹھائیو اور (آخرت میں) اپنے نیک بندوں میں داخل کیجئیو۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
نبوت مل چکی ، بادشاہت عطا ہو گئی ، دکھ کٹ گئے ، ماں باپ اور بھائی سب سے ملاقات ہو گئی تو اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہے کہ جیسے یہ دنیوں نعمتیں تو نے مجھ پر پوری کی ہیں ، ان نعمتوں کو آخرت میں پوری فرما ، جب بھی موت آئے تو اسلام پر اور تیری فرمانبرداری پر آئے اور میں نیک لوگوں میں ملا دیا جاؤں اور نبیوں اور رسولوں میں صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین بہت ممکن ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ دعا بوقت وفات ہو ۔ جیسے کہ بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ انتقال کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی اٹھائی اور یہ دعا کی کہ اے اللہ رفیق اعلی میں ملا دے ۔ تین مرتبہ آپ نے یہی دعا کی ۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اس دعا کا مقصود یہ ہے کہ جب بھی وفات آئے اسلام پر آئے اور نیکوں میں مل جاؤں ۔ یہ نہیں کہ اسی وقت آپ نے یہ دعا اپنی موت کے لئے کی ہو۔ اس کی بالکل وہی مثال ہے جو کوئی کسی کو دعا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ تجھے اسلام پر موت دے ۔ اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ابھی ہی تجھے موت آ جائے ۔ یا جیسے ہم مانگتے ہیں کہ اللہ ہمیں تیرے دین پر ہی موت آئے یا ہماری یہی دعا کہ اللہ مجھے اسلام پر مار اور نیک کاروں میں ملا ۔ اور اگر یہی مراد ہو کہ واقعی آپ نے اسی وقت موت مانگی تو ممکن ہے کہ یہ بات اس شریعت میں جائز ہو ۔ چنانچہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب آپ کے تمام کام بن گئے ، آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں ، ملک ، مال ، عزت ، آبرو، خاندان ، برادری ، بادشاہت سب مل گئے تو آپ کو صالحین کی جماعت میں پہنچنے کا اشتیاق پیدا ہوا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں یہی سب سے پہلے اس دعا کے مانگنے والے ہیں ، ممکن ہے اس سے مراد ابن عباس کی یہ ہو کہ اس دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا کو سب سے پہلے کرنے والے یعنی خاتمہ اسلام پر ہونے کی دعا کے سب سے پہلے مانگنے والے آپ ہی تھے ۔ جیسے کہ یہ دعا رب اففرلی ولوالدی سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام نے مانگی تھی ۔ باوجود اس کے بھی اگر یہی کہا جائے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے موت کی ہی دعا کی تھی تو ہم کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ان کے دین میں جائز ہو ۔ ہمارے ہاں تو سخت ممنوع ہے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے کوئی کسی سختی اور ضرر سے گھبرا کر موت کی آرزو نہ کرے اگر اسے ایسی ہی تمنا کرنی ضروری ہے تو یوں کہے اے اللہ جب تک میری حیات تیرے علم میں میرے لئے بہتر ہے ، مجھے زندہ رکھ اور جب تیرے علم میں میری موت میرے لئے بہتر ہو ، مجھے موت دے دے ۔ بخاری مسلم کی اسی حدیث میں ہے کہ تم میں سے کوئی کسی سختی کے نازل ہونے کی وجہ سے موت کی تمنا ہرگز نہ کرے اگر وہ نیک ہے تو اس کی زندگی اس کی نیکیاں بڑھائے گی اور اگر وہ بد ہے تو بہت ممکن ہے کہ زندگی میں کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے بلکہ یوں کہے اے اللہ جب تک میرے لئے حیات بہتر ہے تو مجھے زندہ رکھ ۔ مسند احمد میں ہے ہم ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ہمیں وعظ و نصیحت کی اور ہمارے دل گرما دئے ۔ اس وقت ہم میں سب سے زیادہ رونے والے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے ، روتے ہی روتے ان کی زبان سے نکل گیا کہ کاش کہ میں مر جاتا آپ نے فرمایا سعد میرے سامنے موت کی تمنا کرتے ہو ؟ تین مرتبہ یہی الفاظ دہرائے ۔ پھر فرمایا اے سعد اگر تو جنت کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو جس قدر عمر بڑھے گی اور نیکیاں زیادہ ہوں گی ، تیرے حق میں بہتر ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی ہرگز ہرگز موت کی تمنا نہ کرے نہ اس کی دعا کرے اس سے پہلے کہ وہ آئے ۔ ہاں اگر کوئی ایسا ہو کہ اسے اپنے اعمال کا وثوق اور ان پر یقین ہو ۔ سنو تم میں سے جو مرتا ہے ، اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں ۔ مومن کے اعمال اس کی نیکیاں ہی بڑھاتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ حکم اس مصیبت میں ہے جو دنیوی ہو اور اسی کی ذات کے متعلق ہو ۔ لیکن اگر فتنہ مذہبی ہو ، مصیبت دینی ہو ، تو موت کا سوال جائز ہے ۔ جیسے کہ فرعون کے جادو گروں نے اس وقت دعا کی تھی جب کہ فرعون انہیں قتل کی دھمکیاں دے رہا تھا ۔ کہا تھا کہ اللہ ہم کو صبر عطا کر اور ہمیں اسلام کی حالت میں موت دے ۔ اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام جب درد زہ سے گھبرا کر کھجور کے تنے تلے گئیں تو بےساختہ منہ سے نکل گیا کہ کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور آج تو لوگوں کی زبان ودل سے بھلا دی گئی ہوتی ۔ یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب معلوم ہوا کہ لوگ انہیں زنا کی تہمت لگا رہے ہیں ، اس لئے کہ آپ خاوند والی نہ تھیں اور حمل ٹھر گیا تھا ۔ پھر بچہ پیدا ہوا تھا اور دنیا نے شور مچایا تھا کہ مریم بڑی بدعورت ہے ، نہ ماں بری نہ باپ بدکار ۔ پس اللہ تعالٰی نے آپ کی مخلصی کر دی اور اپنے بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گہوارے میں زبان دی اور مخلوق کو زبردست معجزہ اور ظاہر نشان دکھا دیا صلوات اللہ وسلامہ علیہاایک حدیث میں ایک لمبی دعا کا ذکر ہے جس میں یہ جملہ بھی ہے کہ اللہ جب تو کسی قوم کے ساتھ فتنہ کا ارادہ کرے تو مجھے اس فتنے میں مبتلا کرنے سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو چیزوں کو انسان اپنے حق میں بری جانتا ہے ؛ موت کو بری جانتا ہے اور موت مومن کے لئے فتنے سے بہتر ہے۔ مال کی کمی کو انسان اپنے لئے برائی خیال کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی ہے الغرض دینی فتنوں کے وقت طلب موت جائز ہے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے آخری زمانے میں جب دیکھا کہ لوگوں کی شرارتیں کسی طرح ختم نہیں ہوتیں اور کسی طرح اتفاق نصیب نہیں ہوتا تو دعا کی کہ الہ العالمین مجھے اب تو اپنی طرف قبض کر لے ۔ یہ لوگ مجھ سے اور میں ان سے تنگ آ چکا ہوں ۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر بھی جب فتنوں کی زیادتی ہوئی اور دین کا سنبھالنا مشکل ہو پڑا اور امیر خراسان کے ساتھ بڑے معرکے پیش آئے تو آپ نے جناب باری سے دعا کی کہ اللہ اب مجھے اپنے پاس بلا لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ فتنوں کے زمانوں میں انسان قبر کو دیکھ کر کہے گا کاش کہ میں اس جگہ ہوتا کیونکہ فتنوں بلاؤں زلزلوں اور سختیوں نے ہر ایک مفتون کو فتنے میں ڈال رکھا ہوگا ۔ ابن جریر میں ہے کہ جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے ان بیٹوں کے لئے جن سے بہت سے قصور سرزد ہو چکے تھے ۔ استغفار کیا تو اللہ نے ان کا استغفار قبول کیا اور انہیں بخش دیا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سارا خاندان مصر میں جمع ہو گیا تو برادران یوسف نے ایک روز آپس میں کہا کہ ہم نے ابا جان کو جتنا ستایا ہے ظاہر ہے ہم نے بھائی یوسف پر جو ظلم توڑے ہیں ، ظاہر ہیں ۔ اب گویہ دونوں بزرگ ہمیں کچھ نہ کہیں اور ہماری خطا سے درگزر فرما جائیں ۔ لیکن کچھ خیال بھی ہے کہ اللہ کے ہاں ہماری کیسی درگت بنے گی ؟ آخر یہ ٹھیری کہ آؤ ابا جی کے پاس چلیں اور ان سے التجائیں کریں ۔ چنانچہ سب مل کر آپ کے پاس آئے ۔ اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام بھی باپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آتے ہی انہوں نے بیک زبان کہا کہ حضور ہم آپ کے پاس ایک ایسے اہم امر کے لئے آج آئے ہیں کہ اس سے پہلے کبھی ایسے اہم کام کے لئے آپ کے پاس نہیں آئے تھے ، ابا جی اور اے بھائی صاحب ہم اس وقت ایسی مصیبت میں مبتلا ہیں اور ہمارے دل اس قدر کپکپا رہے ہیں کہ آج سے پہلے ہماری ایسی حالت کبھی نہیں ہوئی ۔ الغرض کچھ اس طرح نرمی اور لجاجت کی کہ دونوں بزرگوں کا دل بہر آیا ظاہر ہے کہ انبیا کے دلوں میں تمام مخلوق سے زیادہ رحم اور نرمی ہوتی ہے ۔ پوچھا کہ آخر تم کیا کہتے ہو اور ایسی تم پر کیا بپتا پڑی ہے ؟ سب نے کہا آپ کو خوب معلوم ہے کہ ہم نے آپ کو کس قدر ستایا، ہم نے بھائی پر کیسے ظلم وستم ڈھائے ؟ دونوں نے کہا ہاں معلوم ہے پہر ؟ کہا کیا یہ درست ہے کہ آپ دونوں نے ہماری تقصیر معاف فرما دی ؟ ہاں بالکل درست ہے ۔ ہم دل سے معاف کر چکے ۔ تب لڑکوں نے کہا ، آپ کا معاف کر دینا بھی بےسود ہے جب تک کہ اللہ تعالٰی ہمیں معاف نہ کر دے ۔ پوچھا اچھا پھر مجھ سے کیا چاہتے ہو ؟ جواب دیا یہی کہ آپ ہمارے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں ، یہاں تک کہ بذریعہ وحی آپ کو معلوم ہو جائے کہ اللہ نے ہمیں بخش دیا تو البتہ ہماری آنکھوں میں نور اور دل میں سرور آ سکتا ہے ورنہ ہم تو دونوں جہاں سے گئے گزرے ۔ اس وقت آپ کھڑے ہو گئے ، قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ، بڑے ہی خشوع خضوع سے جناب باری میں گڑگڑا گڑا گڑا کر دعائیں شروع کیں ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام دعا کرتے تھے اور حضرت یوسف آمین کہتے تھے ، کہتے ہیں کہ بیس سال تک دعا مقبول نہ ہوئی ۔ آخر بیس سال تک جب کہ بھائیوں کا خون اللہ کے خوف سے خشک ہونے لگا ، تب وحی آئی اور قبولیت دعا اور بخشش فرزندان کی بشارت سنائی گئی بلکہ یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تیرے بعد نبوت بھی انہیں ملے گی ۔ یہ قول حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے اور اس میں دو راوی ضعیف ہیں یزید رقاشی ۔ صالح مری ۔ سدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی موت کے وقت حضرت یوسف علیہ السلام کو وصیت کی کہ مجھے ابراہیم واسحاق کی جگہ میں دفن کرنا ۔ چنانچہ بعد از انتقال آپ نے یہ وصیت پوری کی اور ملک شام کی زمین میں آپ کے باپ دادا کے پاس دفن کیا ۔ علیہم الصلوات والسلام