وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿109﴾
‏ [جالندھری]‏ اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔ کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر (وسیاحت) نہیں کی کہ دیکھ لیتے کہ جو لوگ ان سے پہلے تھے ان کا انجام کیا ہوا؟ اور متقیوں کے لئے آخرت کا گھر بہت اچھا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں۔ ‏
تفسیر ابن كثیر
رسول اور نبی صرف مرد ہی ہوئے ہیں
بیان فرماتا ہے کہ رسول اور نبی مرد ہی بنتے رہے نہ کہ عورتیں ۔ جمہور اہل اسلام کا یہی قول ہے کہ نبوت عورتوں کو کبھی نہیں ملی ۔ اس آیت کریمہ کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے ۔ لیکن بعض کا قول ہے کہ خلیل اللہ علیہ السلام کی بیوی حضرت سارہ ، موسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بھی نبیہ تھیں ۔ ملائیکہ نے حضرت سارہ کو ان کے لڑکے اسحاق اور پوتے یعقوب کی بشارت دی ۔ موسیٰ کی ماں کی طرف انہیں دودھ پلانے کی وحی ہوئی ۔ مریم کو حضرت عیسیٰ کی بشارت فرشتے نے دی۔ فرشتوں نے مریم سے کہا کہ اللہ نے تجھے پسندیدہ پاک اور برگزیدہ کر لیا ہے تمام جہان کی عورتوں پر ۔ اے مریم اپنے رب کی فرماں برداری کرتی رہو ، اس کے لئے سجدے کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اتنا تو ہم مانتے ہیں ، جتنا قرآن نے بیان فرمایا ۔ لیکن اس سے ان کی نبوت ثابت نہیں ہوتی ۔ صرف اتنا فرمان یا اتنی بشارت یا اتنے حکم کسی کی نبوت کے لئے دلیل نہیں ۔ اہل سنت والجماعت کا اور سب کا مذہب یہ کہ عورتوں میں سے کوئی نبوت والی نہیں ۔ ہاں ان میں صدیقات ہیں جیسے کہ سب سے اشرف وافضل عورت حضرت مریم کی نسبت قرآن نے فرمایا ہے آیت (وامہ صدیقتہ) پس اگر وہ نبی ہوتیں تو اس مقام میں وہی مرتبہ بیان کیا جاتا ۔ آیت میں
آیت (وما ارسلنا قبلک من المرسلین الا انہم لیکلون الطعام ویمشون فی الاسواق )
یعنی تجھ سے بھلے جتنے رسول ہم نے بھیجے وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں آمد و رفت بھی رکھتے تھے ۔ وہ ایسے نہ تھے کہ کھانا کھانے سے پاک ہوں ، نہ ایسے تھے کہ کبھی مرنے والے ہی نہ ہوں ، ہم نے ان سے اپنے وعدے پورے کئے ، انہیں اور ان کے ساتھ جنہیں ہم نے چاہا ، نجات دی اور مسرف لوگوں کو ہلاک کر دیا ۔ اسی طرح اور آیت میں ہے آیت (قل ما کنت بدعا من الرسل) الخ یعنی میں کوئی پہلا رسول تو نہیں ؟ الخ یاد رہے کہ اہل قری سے مراد اہل شہر ہیں نہ کہ بادیہ نشین وہ تو بڑے کج طبع اور بداخلاق ہوتے ہیں ۔ مشہور و معروف ہے کہ شہری نرم طبع اور خوض خلق ہوتے ہیں اسی طرح بستیوں سے دور والے ، پرے کنارے رہنے والے بھی عموما ایسے ہی ٹیڑھے ترچھے ہوتے ہیں ۔ قرآن فرماتا ہے آیت (الا عراب اشد کفرا ونفاقا) الخ جنگلوں کے رہنے والے بدو کفر ونفاق میں بہت سخت ہیں۔ قتادہ بھی یہی مطلب بیان فرماتے ہیں کیونکہ شہریوں میں علم وحلم زیادہ ہوتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ بادیہ نشین اعراب میں سے کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا آپ نے اسے بدلہ دیا لیکن اسے اس نے بہت کم سمجھا ، آپ نے اور دیا اور دیا یہاں تک کہ اسے خوش کر دیا ۔ پھر فرمایا میرا تو جی چاہتا ہے کہ سوائے قریش اور انصاری اور ثقفی اور دوسی لوگوں کے اوروں کا تحفہ قبول ہی نہ کروں ۔ ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ مومن جو لوگوں سے ملے جلے اور ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ، وہ اس سے بہتر ہے جو نہ ان سے ملے جلے ہو نہ ان کی ایذاؤں پر صبر کرے ۔ یہ جہٹلانے والے کیا ملک میں چلتے پھرتے نہیں ؟ کہ اپنے سے پہلے کے جھٹلانے والوں کی حالتوں کو دیکھیں اور ان کے انجام پر غور کریں ؟ جیسے فرمان ہے آیت (افلم یسیروا فی الارض فتکون لہم قلوب یعقلون بہا) الخ 
یعنی کیا انہوں نے زمین کی سیر نہیں کی کہ ان کے دل سجھدار ہوتے ، الخ ۔ ان کے کان سن لیتے ، ان کی آنکھیں دیکھ لیتیں کہ ان جیسے گنہگاروں کا کیا حشر ہوتا رہا ہے ؟ وہ نجات سے محروم رہتے ہیں، عتاب الہٰی انہیں غارت کر دیتا ہے ، عالم آخرت انکے لئے بہت ہی بہتر ہے جو احتیاط سے زندگی گزار دیتے ہیں ۔ یہاں بھی نجات پاتے ہیں اور وہاں بھی اور وہاں کی نجات یہاں کی نجات سے بہت ہی بہتر ہے ۔ وعدہ الہٰی ہے آیت (انا لننصر رسلنا) ہم اپنے رسولوں کی اور ان پر ایمان لانے والوں کی اس دینا میں بھی مدد فرماتے ہیں اور قیامت کے دن بھی ان کی امداد کریں گے ، اس دن گواہ کھڑے ہوں گے ، ظالموں کے عذر بےسود رہیں گے ، ان پر لعنت برسے گی اور ان کے لئے برا گھر ہو گا ۔ گھر کی اضافت آخرت کی طرف کی ۔ جیسے صلوۃ اولیٰ اور مسجد جامع اور عام اول اور بارحۃ الاولیٰ اور یوم الخمیس میں ایسے ہی اضافت ہے ، عربی شعروں میں بھی یہ اضافت بکثرت آئی ہے۔